علماء اور مقامی افراد سے مشاورت کے بعد قطعی فیصلہ ہوگا، ورنگل میں پولیس تحویل میں مسلم تاجر کی موت کی تردید: وزیر داخلہ محمود علی
حیدرآباد۔/4مئی، ( سیاست نیوز) وزیر داخلہ محمد محمود علی نے کہا کہ عنبر پیٹ میں شہید کی گئی مسجد یکخانہ سے قریبی علاقہ میں کسی سرکاری یا بلدیہ کی اراضی پر مسجد تعمیر کرنے کا تیقن دیا۔ انہوں نے کہا کہ مسجد چونکہ سڑک کی توسیع میں رکاوٹ بن رہی ہے لہذا بقول ان کے موجودہ اراضی کو سڑک کے توسیعی کام میں حاصل کرتے ہوئے قریبی علاقے میں مسجد کیلئے جگہ الاٹ کردی جائے گی۔ وزیر داخلہ محمد محمود علی کا یہ متنازعہ بیان آج اس وقت آیا جب وہ چو محلہ پیالیس میں رباط کی قرعہ اندازی تقریب میں شرکت کیلئے پہنچے تھے۔ تاہم وہ انتخابی ضابطہ اخلاق کے سبب تقریب میں شریک نہ ہوسکے اور علحدہ کمرہ میں بیٹھنا پڑا۔ واپسی کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں نے جب عنبرپیٹ کی مسجد کو بلدی حکام کی جانب سے شہید کئے جانے سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ناجائز قابضین نے خود کو مالکانہ حقوق ظاہر کرتے ہوئے بلدیہ سے تقریباً ڈھائی کروڑ کا معاوضہ حاصل کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ بلدی حکام اس بات سے لاعلم تھے کہ وہاں مسجد بھی ہے۔ محمود علی نے کہا کہ یہ مسجد طویل عرصہ سے غیر آباد تھی اور کافی زمانہ سے بند تھی۔ جو کچھ بھی ہوا اس کا حکومت کو دکھ ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر کو بھی مسجد کی شہادت کا دکھ ہے کیونکہ وہ ملک کے نمبر ون سیکولر چیف منسٹر ہیں۔ محمود علی نے بتایا کہ انہوں نے اس مسئلہ پر کمشنر میونسپل کارپوریشن، کلکٹر حیدرآباد اور چیف ایکزیکیٹو آفیسر وقف بورڈ سے بات چیت کی ہے۔ قریبی علاقہ میں جہاں بھی اراضی دستیاب رہے گی وہاں مسجد تعمیر کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ضلع کلکٹر نے وقف بورڈ عہدیداروں کے ساتھ سروے کا تیقن دیا ہے اور وہ خود بھی مسجد کا معائنہ کریں گے۔ محمود علی نے کہا کہ ماسٹر پلان کا مقصد ٹریفک میں رکاوٹوں کو دور کرنا ہے اور اسی مقصد سے مسجد کی اراضی حاصل کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یکخانہ انتہائی چھوٹی تھی جہاں نماز پڑھنے کیلئے بھی جگہ نہیں تھی۔وہ اس سلسلہ میں علماء اور مقامی افراد سے رائے حاصل کرتے ہوئے قریب میں اگر کوئی بہتر جگہ ہو تو وہاں مسجد تعمیر کی جائے گی۔ محمود علی نے کہا کہ اگر علماء اسی مقام پر مسجد کی تعمیر کا مشورہ دیں تو اسی مقام پر مسجد تعمیر ہوگی۔ رات کی تاریکی میں مسجد کے انہدام کے معاملہ کی تحقیقات کی جارہی ہے اور جو بھی قصور وار پائے جائیں گے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ورنگل میں مظفر نگر سے تعلق رکھنے والے تاجر کی پولیس تحویل میں ہلاکت کے واقعہ کے بارے میں پوچھے جانے پر وزیر داخلہ نے پولیس کی تحویل یا پھر پولیس کی جانب سے اذیت پہنچانے کی تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے معمول کی کارروائی کی طرح تلاشی مہم کے دوران ان نوجوانوں کو حراست میں لیا۔ انہیں جب پتہ چلا کہ ان کا تعلق اتر پردیش سے ہے تو انہیں متعلقہ پولیس اسٹیشن منتقل کیا گیا۔ تحقیقات کے بعد انہیں رات ایک بجے رہا کردیا گیا۔ ان میں سے ایک قلب کے مریض تھے اور صبح چار بجے طبیعت بگڑنے پر انہیں ہاسپٹل منتقل کیا گیا جہاں ان کی موت واقع ہوگئی۔ اس معاملہ کی تحقیقات کی جارہی ہے۔ وزیر داخلہ نے کمشنر سے بات چیت کی جس پر بتایا گیا کہ مقامی سیاسی قائدین سے بات چیت کے بعد ہی نعش کو مظفر نگر روانہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ شمس آباد انٹر نیشنل ایرپورٹ پر گزشتہ 10 برسوں سے دھوپ اور بارش میں نماز پڑھنے کے معاملہ پر وہ جی ایم آر حکام سے بات چیت کریں گے۔ سابق میں اقلیتی کمیشن نے جی ایم آر کو نوٹس دی تھی اور جی ایم آر نے اس معاملہ پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا چونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر دوران ہے اس لئے تاخیر ہورہی ہے۔ حکومت اس بات کی کوشش کرے گی کہ باہم بات چیت کے ذریعہ نماز گاہ کا انتظام کیا جائے تاکہ ٹیکسی ڈرائیورس اور مسافرین کو سہولت ہو۔