از: سیدحسام الدین
مکہ معظمہ کے بعد کرۂ ارض پر مسلمانوں کا سب سے بڑا مقدس و متبرک مقام مدینہ منورہ ہے۔ یہ وہ شہرمبارک ہے، جسکی طرف حضوراکرم صلی اﷲعلیہ وسلم مکہ سے ہجرت کئے۔ مدینہ منورہ عالم اسلام کی فکر و نظر کا مرکز مملکت سعودی عرب کے مغربی سمت واقع ہے۔یہ مقدس شہر خط استواء کے شمال میں چوبیس(۲۴)۔ اٹھائیس(۲۸) درجہ چوڑا اور مشرق میںانچالیس( ۳۹)۔ چھتیس(۳۶) درجہ طویل ہے۔ شہر مدینہ جس میں مسجدنبوی ہے، اس کے شمال میں ’’جبل ثور‘‘ اور اسکے عقب میں آٹھ کلومیٹر کی دوری پر ’’احد پہاڑ‘‘ ہے۔ مدینہ منورہ کے جنوب میں ’’جبل عیر‘‘ ہے، یہ علاقہ بھی مسجد نبوی سے آٹھ میل کی دوری پر ہے۔مدینہ کے کئی نام ہیں۔ بعض کے نزدیک انتیس(۲۹) بعض کے نزدیک تیس(۳۰) اور بعض کے نزدیک تقریبا چھیانوے(۹۶) نام ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اس شہر کا نام ’’طیبہ‘‘ بھی آیا ہے۔ ایام جاہلیت میں مدینہ منورہ کا نام ’’یثرب‘‘ تھا، جس کے معنی ملامت و ہلاکت اور فساد کے ہیں۔ چنانچہ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اس نام کو بدل کر ’’مدینہ ‘‘ رکھا۔ مدینہ منورہ زمانہ قدیم سے قدرتی وسائل سے مالامال ایک سرسبز علاقہ ہے۔ عہدقدیم میں یہ شہر جزیرہ نمام عرب کے جنوبی علاقہ اور ملک شام کے شمالی علاقہ کے تجارتی قافلوں کے لئے توقف کا مرکز بنا ہوا تھا۔ مدینہ منورہ حضور اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم کو بے حد عزیز تھا۔ مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں قاضی عیاض اورقاضی ابواسید رحمہما اﷲ نے کہا ہے کہ ’’کعبۃ اﷲ کے علاوہ روئے زمین میں مدینہ منورہ افضل ترین جگہ ہے‘‘۔ مدینہ منورہ حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا محبوب شہر تھا، آپ اس شہر کیلئے برکتوں کے نزول کی دعائیں مانگے۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم شہرمدینہ منورہ اور یہاں کے پھلوں میں برکت کی دعا مانگی ’’اے اﷲ! ہمارے مدینہ میں برکت دے، ہمارے پھلوں میں برکت دے وغیرہ۔ (مجمع الفوائد جلد اول) بعد ہجرت حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت ابوایوب انصاری رضی اﷲ عنہ کے مکان میں قیام فرمائے۔
مسجدنبوی کی تعمیر کا کام ربیع الاول ایک ہجری مطابق اکتوبر۶۳۱ء میں شروع ہوا۔ مسجد کی تعمیر میں حضوراکرم صلی اﷲ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی علیہم اجمعین کے ساتھ بذات خود حصہ لئے۔ اور اس مسجد کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی۔ یہ مسجد جب تیار ہوئی تو وہ آرائش و زیبائش سے عاری سادگی کا مکمل نمونہ تھی۔ مسجدکی چھت کھجور کے پتوں سے بنائی گئی۔ بارش میں چھت ٹپکتی تھی، سارا فرش کیچڑ سے بھر جاتا تھا، اس تکلیف کو دور کرنے کیلئے فرش پر سنگریزے بچھادیئے گئے۔ تعمیر کے وقت مسجد نبوی کا قبلہ بیت المقدس کی طرف تھا۔بیت المقدس مدینہ کے شمال میں اور خانہ کعبہ جنوب میں تھا۔ مدینہ آنے کے بعد حضوراکرم ﷺنے تقریبا سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھائی۔ آخر نصف رجب المرجب ۲ ہجری میں تحویل قبلہ کا حکم آیا۔ چنانچہ مالدار صحابہ، اولوالعزم اوردانشوران مل کر مسجدنبوی کی تعمیرجدید و ترمیم میں حصہ لئے۔
۷ہجری میں غزوہ خیبر کے بعد حضور اکرم صلی اﷲعلیہ وسلم نمازیوں کی کثرت کے پیش نظر مسجدنبوی کی توسیع فرمائی۔ یہ توسیع طول میں سو(۱۰۰) ہاتھ اور عرض میں بھی اتنا ہی تھا۔چاروں خلفاء راشدین کے عہد میں مسجدنبوی کی توسیع ہوئی ہے۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک کے عہد میں توسیع کا کام اٹھیاسی(۸۸) ہجری سے اکیانوے(۹۱) ہجری تک جاری رہا، جس میں امہات المؤمنین کے حجروں کو مسجد میں شامل کرلیا گیا۔حضرت عمر بن عبدالعزیزنے مسجد نبوی کے اطراف میں چاروں میناربنائے۔ مسجدنبوی کا پانچواں مینار نویں صدی ہجری میں باب رحمت کے باہر تعمیر کیا گیا۔ سعودی حکومت نے بھی مسجدنبوی کی توسیع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور مسجدنبوی کے شمال و جنوب میں دومینار بنائے جن کی بلندی بہتر(۷۲) میٹر ہے۔ دوسری توسیع کے دوران مزید چھ میناروں کا اضافہ کیا گیا، ان میناروں کی بلندی ایکسوچار(۱۰۴) میٹر ہے۔
مسجدنبوی میں آٹھ ستون تعمیر کئے گئے ہیں۔ (۱) اسطوانہ حنانہ۔ (۲) اسطوانہ عائشہ۔ (۳)اسطوانہ ابی لبابہ۔(۴)اسطوانہ سریر۔ (۵)اسطوانہ محرس۔ (۶)اسطوانہ الوفود۔ (۷)اسطوانہ جبرئیل۔ (۸)اسطوانہ تہجد۔مسجدنبوی کے تین دروازے (۱)جنوب کی جانب۔ (۲)با ب عاتکہ، جسکو اب باب الرحمۃ کہا جاتا ہے۔ (۳)باب عثمان، جس کو اب باب جبرئیل کہا جاتا ہے۔مسجد نبوی میں چھ محراب ہیں۔ (۱) محراب نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔ (۲)محرا ب عثمانی۔ (۳)محراب سلیمانی، جسکو محراب حنفی بھی کہتے ہیں۔ (۴)محراب تہجد ۔ (۵)محراب فاطمہ۔ (۶)شیخ الحرام۔مسجدنبوی صلی اﷲعلیہ وسلم کے شمالی جانب ایک اونچا چبوترہ، جسکو عہدنبوی میں اصحاب صفہ کہتے ہیں۔مسجدنبوی صلی اﷲعلیہ وسلم کا ایک حصہ ریاض الجنۃ ہے۔
گنبدخضرا: حضور اکرم ﷺکے روضہ مبارک پر جو سبز رنگ کا گنبد بنا ہوا ہے، جسے ’’گنبدخضرا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ گنبد مسلمانان اقطاع عالم کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ بارہ سو پچپن(۱۲۵۵) سے لیکر آج تک اس گنبد کا رنگ سبز(ہرا) قائم ہے۔ اور انشاء اﷲ تاقیام قیامت قائم رہیگا۔