مسئلہ تلنگانہ کا جائزہ لینے سپریم کورٹ کا اتفاق، مرکز کو نوٹس

نئی دہلی 7 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) آندھراپردیش کی تقسیم کے ذریعہ تلنگانہ کا قیام آج عدالتی تنقیح کے تحت آگیا جب سپریم کورٹ نے اس مسئلہ کا جائزہ لینے سے اتفاق کرتے ہوئے مرکز سے جواب طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جسٹس ایچ ایل دتو کی زیرقیادت ایک بنچ نے ریاست کی تقسیم کو چیلنج کرتے ہوئے آندھراپردیش کے سابق چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی کے بشمول دیگر کئی افراد کی طرف سے دائر کردہ درخواستوں پر مرکز کو نوٹس جاری کی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس مسئلہ کی سماعت کیلئے دستوری بنچ کی مداخلت کی حمایت کی

اور کہاکہ وسیع تر بنچ اس بات پر بھی غور کرے گی کہ آیا ریاست کی تقسیم پر حکم التواء بھی جاری کیا جاسکتا ہے؟ درخواست گذاروں نے استدلال پیش کیا کہ ریاست کی تقسیم غیر قانونی اور غیر دستوری ہے۔ اُنھوں نے ریاستی اسمبلی کی جانب سے تلنگانہ بل کو مسترد کئے جانے کے باوجود مرکز کی جانب سے پارلیمنٹ میں اِس بل کو منظور کروائے جانے مرکز کے فیصلہ کے جواز کو بھی چیلنج کیا۔ آندھراپردیش کی تقسیم کو چیلنج کرتے ہوئے تقریباً 18 درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہیں۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے بالترتیب 7 اور 17 فروری کو تقسیم کے فیصلہ کے خلاف دائر کردہ درخواستوں کو اس بنیاد پر قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کہ اُس وقت ان پر غور کرنا قبل از وقت ہوسکتا تھا کیونکہ پارلیمنٹ میں یہ بِل منظور نہیں کیا گیا تھا۔ آندھراپردیش کی تقسیم کو پارلیمنٹ نے 20 فروری کو منظوری دی تھی۔ (سلسلہ صفحہ 3 پر)
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے 7 فروری کو تلنگانہ بِل کی پارلیمنٹ میں پیشکشی پر حکم التواء جاری کرنے سے انکار کردیا تھا اور 17 فروری کو دیگر دو درخواستیں مسترد کردی گئی تھیں جن میں آندھراپردیش کی تقسیم کو چیلنج کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ وہ 7 فروری کو اختیار کردہ اپنے فیصلہ پر مختلف رائے یا مختلف موقف اختیار نہیں کرسکتی کیونکہ 7 فروری کو دائر کردہ درخواستوں کو قبل ازوقت قرار دیا گیا تھا۔ بعدازاں 17 فروری کو بھی عدالت نے درخواست گذاروں کے اس استدلال کو مسترد کردیا تھا کہ اب وہ اس مسئلہ پر مداخلت کرسکتی ہے کیونکہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جاچکا ہے۔

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے 7 فروری کو تلنگانہ بِل کی پارلیمنٹ میں پیشکشی پر حکم التواء جاری کرنے سے انکار کردیا تھا اور 17 فروری کو دیگر دو درخواستیں مسترد کردی گئی تھیں جن میں آندھراپردیش کی تقسیم کو چیلنج کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ وہ 7 فروری کو اختیار کردہ اپنے فیصلہ پر مختلف رائے یا مختلف موقف اختیار نہیں کرسکتی کیونکہ 7 فروری کو دائر کردہ درخواستوں کو قبل ازوقت قرار دیا گیا تھا۔ بعدازاں 17 فروری کو بھی عدالت نے درخواست گذاروں کے اس استدلال کو مسترد کردیا تھا کہ اب وہ اس مسئلہ پر مداخلت کرسکتی ہے کیونکہ بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جاچکا ہے۔بنچ نے کہا تھا کہ ’’پارلیمنٹ چونکہ بِل سے نمٹ رہا ہے اور یہ وقت نہیں ہے کہ عدالت اس پر غور کرے۔ ہم آپ (درخواست گذاروں) کے اس نقطہ کو سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بِل پارلیمنٹ میں پیش کیا جاچکا ہے‘‘۔

بنچ نے 17 فروری کو درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ فی الحال اس پر غور کرنا (عدالت کیلئے) قبل ازوقت ہوگا۔ تاہم یہ بھی واضح کردیا تھا کہ درخواستوں میں پیش کردہ نکات و دلائل پر کسی مناسب مرحلہ پر غور کیا جاسکتا ہے۔ وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ نئی ریاست کا یوم تاسیس 2 جون ہوگا جب تلنگانہ کا وجود عمل میں آئے گا نیز وہ ایک نئی ریاست کے طور پر اپنے کام کا آغاز کرے گا۔ این ایس ایس کے مطابق درخواست گذاروں میں مسٹر کرن کمار ریڈی کے علاوہ وائی ایس آر کے رکن پارلیمنٹ میکا پائی راج موہن ریڈی، تلگودیشم کے رکن پارلیمنٹ سی ایم رمیش، بی جے پی لیڈر رگھو رام کرشنم راجو، سابق رکن اسمبلی اے جیا پرکاش اور کئی وکلاء بھی شامل ہیں۔ ان درخواست گذاروں نے 2 جون کو قیام تلنگانہ کے خلاف حکم التواء جاری کرنے کی استدعا کی تھی جس کو عدالت نے مسترد کردیا۔ تاہم جسٹس دتو کی زیرقیادت تین رکنی بنچ نے اس مسئلہ کو ایک انتہائی حساس اور غیرمعمولی نوعیت کا حامل قرار دیتے ہوئے سماعت کے لئے قبول کرلیا۔