ملک اور جمہوریت کی ہے فلاح کایہ اصول
محتسب کا فرض ہے انصاف بے لاگ و لپیٹ
مرکزی حکومت اور میڈیا
مرکز میں چار سال قبل نریندر مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ قومی میڈیا اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو کہیں پس پشت ڈالتے ہوئے حکومت کے ترجمان کا رول ادا کرنے کو ترجیح دے رہا ہے ۔ گذشتہ چار سال کے دوران سوائے چند ایک ٹی وی چینلس اور گنتی کے چند صحافیوں کے سبھی میڈیا گھرانوں اور ٹی وی شوز اینکروں نے تقریبا ہر مسئلہ پر حکومت کے دفاع کا کام کیا ہے اور خود کو بی جے پی اور اس کی ہم قبیل تنظیموں کے نظریہ سے جوڑتے ہوئے کام کرنے کی کوشش کی ہے ۔ کسی بھی مسئلہ پر حکومت کی ناکامیوں اور اس کی خامیوں کو اجاگر کرنے کی بجائے حکومت کی مخالفت کرنے والوں کو نشانہ بنانا اور ٹی وی شو پر بیٹھ کر کسی کو بھی قوم مخالف قرار دینا اور اس کی حب الوطنی کو مشکوک بنانا یا کسی کو حب الوطنی کا سرٹیفیکٹ جاری کرنا ان کا شیوہ بن گیا ہے ۔ میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ چوتھا ستون جو جمہوریت کے دفاع کیلئے سرگرم ہونا چاہئے جمہوریت کی دھجیاں اڑانے والوں کی مدافعت میں مصروف ہوگیا ہے ۔ ہندوستان جیسی دنیا کی سب سے بڑی اور فقیدالمثال جمہوریت میں میڈیا کا اس طرح کا رویہ بھی جمہوریت کیلئے منفی اثرات کا حامل ہی ہوسکتا ہے ۔ مرکز ہو یا ریاست کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو میڈیا کا ذمہ یہ ہے کہ حکومتوں کے اچھے کاموں کو عوام کے سامنے پیش کرے اور حکومت کی خامیوں ‘ ناکامیوں اور اس کی وعدہ خلافیوں پر حکومت سے سوال بھی کرے ۔ یہاں تو میڈیا کا طریقہ کار یہ ہوگیا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر کسی بھی حد تک جاتے ہوئے حکومت کی دفاع اور مدافعت میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کرنے لگے ہیں۔ تقریبا ہر میڈیا گھرانا اور بیشتر ٹی وی اینکرس حکومت کے نمائندوں کی طرح کام کر رہے ہیں اور وہ ملک میں اپوزیشن کے وجود کو مٹانے کی کوششوں میں حصہ دار بن رہے ہیں۔ یہ خود بھی جمہوری اصولوں کے مغائر ہے ۔ میڈیا کا کام یہ ہے کہ وہ تصویر کے دونوں رخ عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے اچھے اور برے اور صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے کا اختیار عوام پر چھوڑ دے لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے ۔
گذشتہ دنوں کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج اور معلق اسمبلی کی صورت میں وہاں ہوئی سیاسی تبدیلیوں اور پھر کانگریس۔ جے ڈی ایس اتحادی حکومت کی تشکیل کے بعد سے میڈیا نے ایسا لگتا ہے کہ 2019 کے انتخابات کیلئے ابھی سے کمرکسنی شروع کردی ہے ۔ ابھی سے یہ سروے کروائے جا رہے ہیں کہ کتنے فیصد لوگ کس جماعت کو ووٹ دینگے ۔ کتنے فیصد لوگ کس لیڈر کو پسند کرتے ہیں۔ کتنے فیصد لوگ حکومت کی کارکردگی کو کس حد تک پسند یا نا پسند کرتے ہیں۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات کیلئے ابھی ایک سال کا وقت باقی ہے ۔ اس سے قبل ملک میں راست عوام کو درپیش بے شمار مسائل ہیں جن پر میڈیا کو کام کرتے ہوئے حکومتوں کی توجہ مبذول کروانے کی ضرورت ہے ۔ اس کی بجائے میڈیا گھرانے ایک دوسری ہی تصویر پیش کرنے میں جٹے ہوئے ہیں۔ ملک میں پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں کا مسئلہ انتہائی سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے ۔ قیمتوں میں مسلسل اور خاموشی سے اضافہ کی جانب میڈیا نے ایسا لگتا ہے کہ توجہ دینا ہی بند کردیا ہے ۔ جو لوگ ٹی وی شوز کی اینکرنگ کرتے ہیں ان کیلئے ہوسکتا ہے کہ یہ مہنگائی یا قیمتوں میں اضافہ زیادہ پریشان کن نہ ہو لیکن ملک کے عوام کی ایک بڑی اکثریت کیلئے یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور اس سے عام آدمی کی زندگی پر مسلسل بوجھ عائد ہو رہا ہے ۔ تیل کی قیمتوں کے ذریعہ تقریبا ہر ضروری شئے کے دام بڑھنے لگے ہیں۔
ملک کی معیشت کی صورتحال اطمینان بخش نہیں کہی جاسکتی ۔ حکومت یقینی طورپر سب کچھ اچھا ہے کی تصویر ہی عوام کے سامنے پیش کرتی ہے اور کر رہی ہے ۔ یہ میڈیا کا کام ہے کہ وہ اس کی سچائی کی تحقیق کرے اور عوام کو اس سے واقف کروائے ۔ یہ میڈیا کا کام ہے کہ حکومت کے چار سال کی کارکردگی کا بالکل غیر جانبدارانہ اور دیانتدارانہ انداز میں جائزہ لے ۔ حکومت کے وعدے کیا تھا اوراب دعوے کیا ہیں اس پر عوام کو واقف کروائے ۔حکومت کے دعوے اور عوام کو درپیش حالات کو پیش کیا جائے ۔ یقینی طور پر اپوزیشن کی ناکامیوں کو بھی اجاگر کرنا میڈیا کا کام ہے لیکن صرف اپوزیشن کو نشانہ بنانے ہی پر توجہ نہیں دی جانی چاہئے ۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین ایک توازن برقرار رکھتے ہوئے کام کیا جانا چاہئے لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے ۔ میڈیا کو حکومت کی ترجمانی اور اس کی نمائندگی کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے اپنے پیشہ کے تقاضوں کی پوری دیانتداری کے ساتھ تکمیل کرنی چاہئے اور یہ ملک اور جمہوریت دونوں کے مفاد میں ہوگا ۔