مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے

مولانا غلام رسول سعیدی

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر و فاقہ کی زندگی کیوں پسند فرمائی؟ اور اس کے بعد اس امر پر بھی غور کریں کہ اسلام نے امراء کو عزت دی ہے یا غرباء کو؟۔ اسلام نے امراء پر زکوۃ اور عشر کو فرض کیا اور حکم دیا کہ غرباء کو اپنی پیداوار کا دسواں اور اپنے اموال کا چالیسواں حصہ دو۔ غرباء کو یہ نہیں فرمایا کہ تم امراء سے جاکر یہ رقم لو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عشر اور زکوۃ کی ادائیگی میں امراء، غرباء کے محتاج ہیں۔ غرباء کو امراء کی احتیاج نہیں، ان محنت کشوں اور مزدوروں کو سرمایہ داروں کے دروازوں پر جانے کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ امراء غرباء کے دروازوں پر جائیں اور ان سے عشر اور زکوۃ لینے کی خواہش کریں۔
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیداکر
اگر غرباء کو امراء عشر اور زکوۃ نہ دیں تو ان کی دنیا بگڑنے کا اندیشہ ہے اور اگر غرباء امراء سے عشر اور زکوۃ نہ لیں تو ان (امراء) کی آخرت بگڑنے کا خطرہ ہے۔ پس امیر اگر زکوۃ دے کر غریب کی دنیا سنوارتا ہے تو غریب زکوۃ لے کر امیر کی عقبیٰ سنوارتا ہے۔ وہ دنیا کے محسن، یہ عقبیٰ کے محسن۔ عشر اور زکوۃ دینے کے باوجود امراء عرصۂ محشر میں پانچ سو سال تک کھڑے منتظر ہوں گے، جب غرباء، محنت کشوں اور مزدوروں کا قافلہ گزر جائے گا تو پانچ سو سال بعد امراء کو جنت میں جانے کی اجازت ملے گی۔

اجر و ثواب کی بات آئی ہے تو یہ بھی سن لیجئے کہ امراء صدقہ کریں تو اللہ تعالیٰ نے دس سے سات سو گنا تک اجر دینے کا وعدہ فرمایا، لیکن جب غربت کے ماروں، آلام و مصائب پر صبر کرنے والوں کی باری آئی تو اعداد و شمار ختم کردیئے اور فرمایا: ’’صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بے حساب اجر و ثواب عطا فرمائے گا‘‘۔ (سورۃ الزمر۔۱۰)
غرباء اکثر بھوکے پیاسے رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے سب پر ایک ماہ کی بھوک پیاس فرض کردی۔ یہ حصول معاش کے لئے وطن سے دُور مارے مارے پھرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے امراء پر حج فرض کردیا۔ امراء روزہ رکھیں تاکہ ان پر غرباء کی بھوک ظاہر ہو اور یہ حج کے لئے سفر کریں تاکہ ان میں مسافر اور غربت کا رنگ پایا جاسکے۔ زیب و زینت اور لذت سے دُور رہیں، تاکہ ان پر غربت کی بیکسی طاری ہو۔ مہد سے لحد تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی ملاحظہ کیجئے، آپﷺ نے خزائن ارض و سماء کی چابیاں رکھنے کے باوجود فقر و فاقہ والی زندگی گزاری۔ اللہ تعالیٰ نے پیدا کرتے ہی آپ کو بنوسعد کی ایک غریب دایہ کی آغوش میں دے دیا، تاکہ ابتداء سے یہ تصور قائم ہو کہ ’’آپ غرباء کے ہیں‘‘۔ آپﷺ نے وہ سارے کام انجام دیئے، جو غرباء کرتے ہیں اور یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ امت کا کوئی غریب ان حالات کا سامنا کرے تو اس کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہو اور وہ یہ سوچے کہ ان تکالیف میں میں تنہا نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے دن گزارے ہیں اور مجھ سے بڑھ کر کٹھن ایام گزارے ہیں۔

واضح رہے کہ امراء کوٹھیوں کے مالک ہو سکتے ہیں، کارخانے چلا سکتے ہیں، بینک میں زرکثیر جمع کراسکتے ہیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے پیکر نہیں بن سکتے اور غرباء کچھ لیں یا نہ لیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی لے سکتے ہیں۔ امراء کے لئے مال و دولت کے انبار سہی، غرباء کے لئے یہ اعزاز کچھ کم تو نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گزاری ہوئی زندگی ان کی زندگی ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ فقراء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فخر کرتے، مگر کیا یہ ان کی عظمتوں کی معراج نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقراء پر فخر فرمایا ہے اور جب یہی غریب مزدور اور محنت کش لوگ، جن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی فقر و فاقہ میں گزاری، سڑکوں پر ماؤ اور لینن کی سیرت کا پرچار کرتے پھریں تو ذرا چشم تصور سے سوچیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟۔ (اقتباس)