مذہبی جلسے اور اسلوب خطابت

مفتی محمد قاسم صدیقی

دعوت و تبلغ اور اصلاح معاشرہ کا ایک مؤثر ذریعہ وعظ و نصیحت اور تقریر و خطابت ہے۔ خطابت انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ اللہ تعالی نے انبیاء کرام و پیغمبران عظام علیہم السلام کو فصاحت کلام اور بلاغت بیان سے سرفراز فرمایا، تاکہ وہ بھٹکی ہوئی انسانیت کو ان کی عقل و فہم کے مطابق دین حق اور پیغام ربانی کو مؤثر پیرایہ میں بیان کریں اور اپنی امت دعوت و امت اجابت کی ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فصاحت لسان اور بلاغت بیان میں تمام عرب میں ممتاز تھے۔ آپ کا اسلوب بیان فطری و طبعی ہونے کے ساتھ وحی الہی سے معمور تھا۔ جو کلمات آپﷺ کی زبان مبارک سے نکلتے، وہ سامع کے کان کے پردوں سے ہوتے ہوئے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتے، دل کی دنیا میں انقلاب برپا کردیتے، فکر و نظر کے زاویوں کو بدل دیتے، پتھر سے پتھر دل بھی موم ہو جاتے اور جان کے دشمن جاں نثار بن جاتے۔

الجاحظ نے محمد بن سلام سے یونس بن حبیب کا قول نقل کیا ہے کہ فصاحت و بلاغت کے جو اعلی ترین نمونے ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں میسر آئے ہیں، وہ کسی خطیب کے کلام سے میسر نہ آسکے۔ (البیان والتبیین۲:۱۸)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک مرتبہ آپﷺ سے عرض کیا ’’یارسول اللہ! میں بلاد عرب میں اکثر گھوما پھرا ہوں، عرب کے بے شمار فصحاء کی باتیں سنی ہیں، مگر میں نے آپﷺ سے زیادہ فصیح و بلیغ کوئی نہیں دیکھا۔ آپﷺ کو فصاحت و بلاغت کا یہ کمال کیونکر حاصل ہوا؟‘‘۔ آپﷺ نے جواب دیا کہ ’’مجھے اپنے رب نے ادب سکھایا ہے اور بہت ہی خوب سکھایا ہے‘‘۔ (الادب العربی و تاریخہ۱:۳۴)
علماء، صوفیہ اور واعظین نے ہر زمانے میں ملت اسلامیہ کی رشد و ہدایت، اصلاح و تبلیغ کے لئے خطابت کو اختیار کیا اور ان کے خطاب و بیان میں تاثیر ہوا کرتی تھی، تصنع و تکلف سے ان کے وعظ خالی ہوتے۔ سادگی، شستگی اور دلنشینی ان کے خطاب کی نمایاں خوبی ہوتی۔ ان کے مختصر کلام میں معنویت اور دل پزیری ہوتی اور اثرات مرتب ہوتے۔

آج کل مذہبی جلسوں کا ہجوم ہے۔ ہر طرف، ہر محلہ میں مذہبی پروگرامس کا انعقاد عمل میں لایا جا رہا ہے۔ بڑے تزک و احتشام سے جلسے منعقد ہو رہے ہیں، طول طویل تقاریر ہو رہی ہیں، تکبیر و رسالت کے نعروں سے فضائیں گونج رہی ہیں، لیکن عملی زندگی میں کوئی اثر مرتب نہیں ہو رہا ہے، بلکہ ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق بے راہ روی اور بے عملی میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔

’’خیر الکلام ماقل و مادل‘‘ کے بمصداق بہترین کلام وہ ہے، جو مختصر ہو اور رہنمائی کرنے والا ہو، بلکہ اکابر طویل خطابات سے گریز کرنے کا حکم دیتے اور مختصر و جامع وعظ کی تاکید فرماتے۔
حیدرآباد کے مذہبی جلسے بالعموم عشاء کی نماز کے بعد تقریباً نو دس بجے شروع ہوتے ہیں اور رات دیر گئے تک جاری رہتے ہیں۔ عشاء کی نماز کے بعد طویل جلسے مزاج اسلامی اور سنت نبوی کے خلاف ہیں۔ اگرچہ آج کل لوگ دیر سے سونے کے عادی ہو گئے ہیں، لیکن اتنی تاخیر کہ انسان نارمل نیند کے بعد فجر کے لئے بیدار نہ ہوسکے، قطعاً مناسب نہیں۔ کیا ہی بہتر بات ہوتی کہ منتظمین جلسہ نوجوانوں اور برادران اسلام کو نماز مغرب میں جمع کریں اور مغرب تا عشاء یا عشاء کے بعد گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ خطاب ہو اور لوگ اپنے گھروں کو لوٹ کر اپنے مقررہ وقت پر بآسانی آرام کرسکیں، تاکہ فجر کی نماز کو بیدار ہونے کے لئے کوئی دقت نہ ہو۔

اس کے علاوہ مخصوص موضوعات ہی پر مقررین تقریر کرنا پسند کر رہے ہیں اور داد تحسین حاصل کر رہے ہیں۔ ملت کے مسائل بڑھ رہے ہیں، بے راہ روی عام ہو رہی ہے، مساجد سے تعلق ختم ہو رہا ہے، قرآن پاک سے وابستگی میں کمی آرہی ہے، عملی طورپر ذکر و شغل اور درود شریف کے اہتمام میں رغبت اور اتباع سنت کا جذبہ مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ علماء اور واعظین کی ذمہ داری ہے کہ مسلم معاشرہ جن مسائل سے دو چار ہے، جن پریشانیوں کا شکار ہے، اس میں ان کی خاطر خواہ رہنمائی ہو۔ ملت میں انتشار کی بجائے اتحاد و اتفاق اور پیار و محبت کی فضاء ہموار ہو۔
اسلوب خطابت میں چند امور ملحوظ ہونا چاہئے، مواد کی فراہمی کے ساتھ شستہ بیانی بھی مطلوب ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ’’یارسول اللہ! انسان کا حسن کس بات میں ہے؟‘‘ تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’انسان کا حسن و جمال اس کی زبان میں ہے‘‘۔ (العقد الفرید۲:۲۲۱)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم متانت و ثقاہت سے گرے ہوئے کلام کو قطعاً پسند نہ فرماتے اور باچھیں کھول کر تقریر کرنے سے منع فرماتے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے ’’اللہ تعالی ایسے خطباء کو ناپسند فرماتا ہے، جو اپنی تقریر کے دوران زبان اس طرح ہلاتے ہیں، جس طرح کوئی گائے جگالی کرتی ہے‘‘۔ (الترمذی: الجامع السنن، باب ماجاء فی الفصاحت والبیان۲:۴۱۱)
ترمذی میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام لوگوں کی طرح جلدی جلدی نہیں فرماتے تھے، بلکہ آپﷺ کا انداز کلام تو بالکل واضح اور دوٹوک ہوا کرتا تھا۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ ’’مجلس میں بیٹھنے والا آپﷺ کے فرمودات کو آسانی سے حفظ کرسکتا تھا‘‘۔ (بخاری کتاب العلم باب من اعاد الحدیث ثلاثا)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ تعالی نے مجھے باد صبا کے ذریعہ فتح و نصرت عطا فرمائی ہے اور مجھے جوامع الکلم (مختصر مگر جامع و پرمغز انداز کلام) بھی عنایت فرمایا‘‘۔ (البیان والتبیین۴:۲۹)