علامہ احمد سعید کاظمی
آیت کریمہ ’’وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ (میں سب سے پہلا مسلم ہوں) میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولیت خلقت کی طرف واضح اشارہ پایا جاتا ہے۔ صاحب عرائس البیان فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں اشارہ ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی روح پاک اور جوہر مقدس جمیع کون یعنی تمام ماسواء اللہ پر مقدم ہے‘‘ (عرائس البیان، جلد۱، صفحہ۲۳۸) ظاہر ہے کہ اختیاری یا غیر اختیاری اسلام سے تو عالم کا کوئی ذرہ خالی نہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: ترجمہ: ’’حالانکہ اسی کے حضور سر جھکا دیا ہے ہر چیز نے، جو آسمانوں اور زمین میں ہے خوشی سے یا مجبوری سے اور اسی کی طرف وہ (سب) لوٹائے جائیں گے‘‘ (آل عمران۔۸۳) پھر سب اسلام لانے والوں سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت ہوسکتے ہیں، جب کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سب سے پہلے ہوں، لہذا اس آیت سے بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلقت تمام کائنات سے پہلے ہوئی۔ اس آیت کے بعد احادیث مبارکہ میں بھی اس مضمون کو ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت امام عبد الرزاق صاحب مصنف نے اپنی سند کے ساتھ سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے کہ حضرت جابر فرماتے ہیں: ’’میں نے عرض کیا یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ مجھے خبر دیں کہ وہ پہلی چیز کونسی ہے، جسے اللہ تعالیٰ تمام اشیاء سے پہلے پیدا فرمایا؟‘‘۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ’’اے جابر! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا، پھر یہ نور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے موافق جہاں اس نے چاہا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم تھا، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ فرشتہ تھا، نہ آسمان، نہ زمین تھی، نہ سورج، نہ چاند، نہ جن، نہ انسان۔ جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کردیا۔ پہلے حصہ سے قلم بنایا، دوسرے حصہ سے لوح، تیسرے حصہ سے عرش اور پھر چوتھے حصہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا، تو پہلے حصہ سے عرش اُٹھانے والے فرشتے بنائے، دوسرے سے کرسی، تیسرے سے باقی فرشتے اور پھر چوتھے حصہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا، تو پہلے حصہ سے آسمان بنائے، دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت اور دوزخ اور پھر چوتھے حصہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا، تو پہلے سے مؤمنین کی آنکھوں کا نور بنایا، دوسرے سے ان کی دِلوں کا نور پیدا کیا جو معرفت الہٰی ہے، تیسرے سے ان کا نور انس پیدا کیا اور وہ توحید ہے (جس کا خلاصہ لَاالہ الّااللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ہے)… الخ‘‘۔
(مواہب لدنیہ، جلد اول، صفحہ۹۔ سیرت حلبیہ جلد۱، صفحہ۳۰۔ زرقانی جلد اول، صفحہ۴۶)
یہ حدیث شریف مصنف عبد الرزاق سے جلیل القدر محدثین جیسے امام قسطلانی شارح بخاری، امام زرقانی، امام ابن حجر مکی، علامہ فارقی اور علامہ دیار بکری نے اپنی تصانیف جلیلہ افضل القریٰ، مواہب اللدنیہ، مطالع المسرات خمیس اور زرقانی علی المواہب میں نقل فرماکر اس پر اعتماد اور اس سے مسائل کا استنباط کیا۔ امام عبد الرزاق صاحب مصنف جو اس حدیث شریف کے مخرج ہیں، وہ امام احمد بن حنبل جیسے اکابر ائمۂ دین کے استاد ہیں۔ امام احمد بن صالح مصری کہتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے حدیث میں کوئی شخص عبد الرزاق سے بہتر دیکھا؟‘‘۔
انھوں نے فرمایا: ’’نہیں‘‘۔ عقائد میں اہل سنت کے امام حضرت سیدنا ابوالحسن اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ ایسا نور ہے کہ کسی نور کی مثل نہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مقدسہ اسی نور کی چمک ہے اور فرشتے ان ہی انوار سے جھڑے ہوئے پھول ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرا نور پیدا فرمایا اور میرے ہی نور سے ہر چیز پیدا فرمائی‘‘۔
اس حدیث کے علاوہ اور بھی احادیث اس مضمون میں وارد ہیں۔ حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’حدیث صحیح میں وارد ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا فرمایا‘‘ (مدارج النبوۃ، جلد۲، صفحہ۲) پھر حدیث جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مضمون بیان فرمایا۔ کثیر التعداد جلیل القدر ائمہ کا اس حدیث شریف کو قبول کرنا، اس کی تصحیح فرمانا، اس پر اعتماد کرکے اس سے مسائل استنباط کرنا اس کے صحیح ہونے کی روشن دلیل ہے، خصوصاً سیدنا عبد الغنی نابلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حدیقہ ندیہ کے مبحث ثانی (نوع ستین من آفات اللسان فی مسئلہ ذم الطعام) میں اس حدیث کے متعلق ’’الحدیث الصحیح‘‘ فرمانا صحت حدیث کو زیادہ واضح کردیتا ہے۔ ان مختصر جملوں سے ان حضرات کو مطمئن کرنا مقصود ہے، جو اس حدیث شریف کی صحت میں متردد رہتے ہیں۔
اس حدیث میں نور کی اضافت بیانیہ ہے اور نور سے مراد ذات ہے (زرقانی، جلد اول، صفحہ۴۶) حدیث شریف کے معنی یہ ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے نور پاک یعنی ذات مقدسہ کو اپنے نور یعنی اپنی ذات مقدسہ سے پیدا فرمایا‘‘۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ معاذ اللہ! اللہ تعالیٰ کی ذات حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات کا مادہ ہے، یا نعوذ باللہ! حضورﷺ کا نور اللہ کے نور کا کوئی حصہ یا ٹکڑا ہے۔ اگر کسی ناواقف شخص کا یہ اعتقاد ہے تو اس پر توبہ کرنا فرض ہے، اس لئے کہ ایسا ناپاک عقیدہ خالص کفر و شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ بلکہ اس حدیث شریف کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی ذاتی تجلی فرمائی جو حسن الوہیت کا ظہور اول تھی، بغیر اس کے کہ ذات خداوندی نور محمدی کا مادہ یا حصہ اور جزو قرار پائے۔ یہ کیفیت متشابہات میں سے ہے، جس کا سمجھنا ہمارے لئے ایسا ہی ہے، جیسا کہ قرآن و حدیث کے دیگر متشابہات کا سمجھنا، البتہ نکتے اور لطیفے کے طورپر اتنا کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح شیشہ آفتاب کے نور سے روشن ہو جاتا ہے، لیکن آفتاب کی ذات یا اس کی نورانیت اور روشنی میں کوئی کمی نہیں واقع ہوتی اور ہمارا یہ کہنا بھی صحیح ہوتا ہے کہ شیشہ کا نور آفتاب کے نور سے ہی ہے، اسی طرح حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اللہ تعالیٰ کی ذات سے پیدا ہوا اور آئینہ محمدی نور ذات احدی سے اس طرح منور ہوا کہ نور محمدی کو نور خداوندی سے قرار دینا صحیح ہوا، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی ذات پاک یا اس کی کسی صفت میں کوئی نقصان اور کمی واقع نہیں ہوئی۔ شیشہ سورج سے روشن ہوا اور اس ایک شیشہ سے تمام شیشے منور ہو گئے۔ نہ پہلے شیشہ نے آفتاب کے نور کو کم کیا نہ دوسرے شیشوں نے پہلے شیشہ کے نور میں کچھ کمی کی۔ حقیقت یہ ہے کہ فیضان وجود اللہ تعالیٰ کی ذات سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا اور حضور کی ذات سے تمام ممکنات کو وجود کا فیض حاصل ہوا۔ (مقالاتِ کاظمی سے اقتباس)