سرکاری محکمہ میں رشوت کا چلن عام ‘ سنٹر فار میڈیا اسٹیڈیز کی رپورٹ
حیدرآباد ۔4جولائی ( سیاست نیوز) محکمہ پولیس کی ساکھ کو بہتر بنانے عہدیداروں کی کوششیں بے سود ثابت ہورہی ہیں ۔ سرکاری محکموں کی کارکردگی کے دوران رشوت خوری کے رجحان میںتیارکردہ ایک رپورٹ میں حیرت انگیز انکشافات ہوئے اور بتایا گیا ہے کہ ہر 10پولیس ملازمین میں 4رشوت خوری میں ملوث پائے جاتے ہیں جبکہ تقریباً سرکاری محکمہ رشوت خوری کی لعنت میں ملوث پائے گئے ہیں ۔ سنٹر فار میڈیا اسٹیڈیز نے جاریہ سال اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس میں 12سرکاری بشمول کارکردگی اور رشوت خوری کے متعلق عوامی رجحانات کو شامل کیا گیا ۔ اکثر سرکاری محکموں میں عوام اور عہدیدار سرکاری ملازم کے درمیان رابطہ درمیانی فرد کے بغیر اطمینان بخش نہیں ہوتا چونکہ راست رابطہ اور سسٹم سے کام کی انجام دہی اور تمام تکمیل تک پہنچانا ہوتو پھر درمیانی فرد کا دخل ضروری ہوجاتاہے ۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو پھر کام پیچیدہ اور تساہل کا شکار ہوجاتاہے ۔ رپورٹ میں ہر 10ملازمین میں 4 ملازمین کی موجودگی یقیناً تشویش کا باعث ہے ۔جہاں تک شکایتوں کے حصول ‘ شکایت گذار سے بھی رشوت کی طلب کی جاتی ہے ۔ رپورٹ کی تیاری میں سنٹر فار میڈیا اسٹیڈیز نے محکمہ انسداد رشوت ستانی سے مواد بھی حاصل کیا جس میں حاصل ہونے والی شکایتوں میں سب سے زیادہ پولیس ملازمین کے خلاف پائی جاتی ہے ۔ شکایت گذار کی درخواست کے حصول ‘ متاثرین کو ان کی اشیاء کی فراہمی یا پھر پولیس اسٹیشن میں خاطی کے خلاف نرم رویہ اختیار کرنا ہو یا پھر دفعات کی تبدیلی زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کسی شہری کو دھمکانے اور اس پر معاملہ فہمی کیلئے دباؤ ڈالنے کے اقدامات ہو یا پھر جانبداری کے کام لینا ہو ان سب معاملات کیلئے رشوت طلب کرنے کیلئے پولیس ڈپارٹمنٹ بدنامی کا شکار ہوتا جارہا ہے ۔ محکمہ انسداد رشوت ستانی سے رجوع ہونے والے شہریوں اور شکایت گذار کی شکایتیں اکثر پولیس ملازمین کے خلاف ہی پائی جاتی ہے جس کی تازہ مثالیں حالیہ دنوں حیدرآباد اور رچہ کنڈہ پولیس کمشنریٹ میں ملتی ہیں جہاں پولیس ملازمین رشوت لیتے ہوئے اے سی بی عہدیدار کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرلئے گئے ۔ ہمایوں نگر پولیس اسٹیشن سے وابستہ ایک سب انسپکٹر نے قتل کیس میں ملوث ملزم سے 50ہزار روپئے رشوت طلب کی اور ایک پولیس کانسٹبل بھی اس دوران اے سی بی عہدیداروں کے ہاتھوں رنگے ہاتھ گرفتار کرلیا گیا ۔ سب انسپکٹر پولیس ہمایوں نگر مسٹر سریکانت نے پولیس تحویل میں تعاون اور مدد کیلئے رقمی مطالبہ کیا تھا جبکہ چیتنیہ پوری پولیس سے وابستہ سب انسپکٹر مسٹرایروبی نے خطرناک جرم کے مرتکب شہری کے خلاف نرم کارروائی کرنے اور راحت فراہم کرنے کیلئے ایک وکیل سے 20ہزار روپئے کی رشوت طلب کی تھی جس کو پولیس اسٹیشن میں اے سی بی کے عہدیداروں نے رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا ۔ اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں چلکل گوڑہ پولیس سے وابستہ ڈی ایس پی وینکٹادری اور کانسٹبل راجیش نے مسروقہ گاڑی جو ضبط کی گئی تھی اس کے مالک کو حوالے کرنے کیلئے رشوت طلب کی تھی ۔ سنٹر فار میڈیا اسٹیڈیز کی جانب سے جاری رپورٹ میں 12 سرکاری محکموں میں پولیس کے بعد دوسرے نمبر پر بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کا مقام آتا ہے ۔ تاہم پولیس ڈپارٹمنٹ میں نیچے سطح کے عہدیدار پر ہی ایسے الزامات اور انہیں کے خلاف شکایتیں پائی جاتی ہیں ۔ محکمہ بلدیہ میں ہیلت اینڈ میناریٹیز ‘ ریونیو اور ٹاؤن پلاننگ شعبہ سب سے زیادہ بدنام ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں سالانہ 313کروڑ روپئے شکایت کرنے والوں کی جانب سے دیئے جاتے ہیں جبکہ 460کروڑ روپئے ایف آئی آر سے نام نکالنے اور پولیس کی سخت کارروائی سے بچنے کیلئے رشوت کی شکل میں عوام انہیں ادا کرتے ہیں ۔ اس طرح 234 کروڑ روپئے ٹریفک و دیگر قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے عائد کرنے اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر کارروائی سے بچنے کیلئے بطور رشوت ادا کی جاتی ہے ۔ حالانکہ ریاست تلنگانہ میں حکومت نے محکمہ پولیس کو ہر وہ سہولت فراہم کرتے ہوئے کمیونٹی پولیسنگ پر زور دے رہی ہے تاکہ عوام کی بہتر انداز میں خدمات انجام دی جاسکیں اور پولیس کی ساکھ کو عوام میں بہتر سے بہتر بناتے ہوئے ان کے وقار میں اضافہ کیا جاسکے ۔ تاہم پولیس ملازمین کے اس رویہ پر اعلیٰ عہدیداروں کی الجھن میں اضافہ ہوگیا ہے ۔