محکمہ اقلیتی بہبود کی کارکردگی خانگی ادارہ کی طرز پر

عہدیداروں کی اقرباء پروری ، دفتر تجاہل عارفانہ کا شکار ، عہدیدار کی تردید حقائق سے بعید
حیدرآباد۔/28 اپریل،( سیاست نیوز) محکمہ اقلیتی بہبود ایک خانگی ادارہ کی طرح کام کررہا ہے جہاں سرکاری قواعد پر عمل آوری نہیں کی جاتی۔محکمہ میںبے قاعدگیوں کا جب ٹی آر ایس کے رکن قانون ساز کونسل ایم ایس پربھاکر نے انکشاف کیا تو سکریٹری اقلیتی بہبود نے ناراض ہوکر تقریب سے بائیکاٹ کیا۔ وہ دراصل محکمہ میں کرپشن اور بے قاعدگیوں کی تردید کررہے تھے لیکن محکمہ میں جاری بے قاعدگیوں کی مثالیں یکے بعد دیگرے منظر عام پر آرہی ہیں۔ اگرچہ محکمہ اقلیتی بہبود ایک سرکاری محکمہ ہے جہاں دیگر محکمہ جات کی طرح سرکاری قواعد پر عمل آوری کی جاتی ہے لیکن جب عمل آوری کرنے والے عہدیدار ہی اقرباء پروری اور تجاہل عارفانہ کا شکار ہوجائیں تو پھر محکمہ کی کارکردگی یقینا متاثر ہوگی۔ سکریٹری اقلیتی بہبود کو ایم ایس پربھاکر کے ریمارک کافی ناگوار گزرے لیکن ان کی آنکھوں کے سامنے محکمہ میں ایک شخص غیر قانونی طور پر 2 ماہ سے زائد عرصہ تک ریٹائرمنٹ کے باوجود صرف اسی عہدہ پر برقرار رہا بلکہ اس نے عہدہ کے مطابق فائیلوں کی یکسوئی بھی کی۔ سرکاری قواعد کے مطابق آئی اے ایس رتبہ کا عہدیدار بھی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کے دوسرے دن فائیل پر دستخط نہیں کرسکتا اور اگر وہ ایسی غلطی کرے تو ساری کارروائی غیر قانونی تصور کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں چونکہ معاملہ دو عہدیداروں کے پسندیدہ شخص کا تھا لہذا دونوں اعلیٰ عہدیداروں نے بھی جان بوجھ کر غیر قانونی کام کو جاری رکھا۔ اس طرح یہ عہدیدار خود بھی غیر قانونی عمل میں تعاون کے یکساں مرتکب قرار پاتے ہیں۔ اقلیتی فینانس کارپوریشن کے متنازعہ ریٹائرڈ عہدیدار سے دو اعلیٰ عہدیداروں کی ہمدردی کے بارے میں اگرچہ کئی واقعات محکمہ کے ہر ملازم کی زبان پر ہیں لیکن یکم اپریل کو جاری کردہ جی او آر ٹی 67 نے اعلیٰ عہدیداروں کا حقیقی چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔اس جی او کو انتہائی راز میں رکھا گیا تھا تاکہ کوئی اسے عدالت میں چیلنج نہ کردے۔ ’سیاست‘ نے اس جی او کی کاپی حاصل کی جس نے محکمہ میں جاری قواعد کی خلاف ورزیوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ واضح رہے کہ اقلیتی فینانس کارپوریشن میں 30جنوری کو جنرل منیجر کے عہدہ سے عہدیدار کا ریٹائرمنٹ ہوا اور حکومت نے یکم اپریل کو اس ریٹائرڈ جی ایم کو اقامتی اسکولس کی سوسائٹی میں او ایس ڈی مقرر کیا۔ اگرچہ ریٹائرمنٹ اور اسکول سوسائٹی میں کمتر عہدہ پر عارضی تقرر کیلئے دو ماہ کا وقت لگا لیکن ان دو ماہ کے دوران مذکورہ ریٹائرڈ عہدیدار نے برسرخدمت عہدیدار کی طرح فرائض انجام دیئے اور اطلاعات کے مطابق اس نے اہم فائیلوں کی یکسوئی بھی کی۔ ’ سیاست‘ کی جانب سے ان بے قاعدگیوں کے مسلسل انکشافات اور ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی کی برہمی کے بعد عہدیدار بادل نخواستہ اپنے پسندیدہ شخص کو ہٹانے پر مجبور ہوئے۔ ایک اور انکشاف جی او کے ذریعہ یہ ہوا کہ اپنے پسندیدہ شخص کو بازمامور کرنے کیلئے ریٹائرمنٹ سے ایک دن قبل  29جنوری کو کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائرکٹرس کا اجلاس طلب کیا گیا جس میں جنرل منیجر کے عہدہ پر مزید دو سال کی توسیع کے حق میں قرارداد منظور کرتے ہوئے حکومت کو روانہ کی گئی ۔ ڈائرکٹر اقلیتی بہبود ایم جے اکبر نے اس تجویز کی مخالفت کی تھی جبکہ منیجنگ ڈائرکٹر اور سکریٹری نے تائید کی۔ سکریٹری اقلیتی بہبود نے بحیثیت بااعتبار عہدہ صدرنشین کارپوریشن اس تجویز کو منظوری دی۔ بورڈ آف ڈائرکٹرس کے علاوہ مختلف گوشوں سے اس سلسلہ میں حکومت پر دباؤ بنانے، مقامی سیاسی جماعت کی تائید اور کارپوریشن کے اسٹانڈنگ کونسل کی رائے شامل کرنے کے باوجود چیف منسٹر نے جنرل منیجر کی حیثیت سے برقراری کی درخواست کو مسترد کردیا۔ یہ درخواست مسترد کرنے کی اہم وجہ مذکورہ ریٹائرڈ عہدیدار کے خلاف سنگین الزامات ہیں جن کا معاملہ ہائی کورٹ میں زیر دوران ہے۔ سابق میں حج کمیٹی میں خدمات کے دوران بھی مذکورہ شخص کو الزامات کا سامنا رہا۔ حکومت نے مسلسل دباؤ کے باوجود 2 ماہ تک فائیل کو زیر التوا رکھا اور یکم اپریل ( اپریل فول کے دن ) جی او آر ٹی 67 کے ذریعہ اسکول سوسائٹی میں معمولی درجہ کے پوسٹ او ایس ڈی کی حیثیت سے تقرر کو منظوری دی۔ عہدیداروں کو یہ جواب دینا ہوگا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سے جی او کی اجرائی تک دو ماہ کے دوران مذکورہ ریٹائرڈ عہدیدار کس طرح فرائض انجام دیتا رہا اور اس کی جانب سے منظورہ فائیلوں کی کیا نوعیت ہوگی۔ الغرض محکمہ اقلیتی بہبود میں قواعد کی خلاف ورزی کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔