عمرجلیل کا واک آؤٹ‘ ڈپٹی چیف منسٹر کی مصالحت ‘ ائمہ و موذنین کی اعزازیہ تقریب میں ڈرامہ بازی
حیدرآباد ۔ 25 ۔ اپریل (سیاست نیوز) حج ہاؤز میں ائمہ اور مؤذنین کو اعزازیہ کی اجرائی کی تقریب میں آج اس وقت سنسنی دوڑ گئی جب برسر اقتدار ٹی آر ایس کے رکن قانون ساز کونسل ایم ایس پربھاکر نے اقلیتی بہبود میں بڑے پیمانہ پر کرپشن اور بے قاعدگیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے ڈپٹی چیف منسٹر سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ایم ایس پربھاکر کے اس غیر متوقع اور سنگین الزام پر ڈپٹی چیف منسٹر اور دیگر عوامی نمائندے خود بھی حیرت میں پڑ گئے۔ سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل محکمہ پر الزامات سے ناراض ہوکر تقریب سے چلے گئے اور انہوں نے ڈپٹی چیف منسٹر سے خواہش کی کہ انہیں فوری طور پر اقلیتی بہبود سے سبکدوش کردیا جائے ۔ سید عمر جلیل کے اس اقدام سے عوامی نمائندے اور سامعین حیرت میں پڑ گئے اور انہیں کسی طرح سمجھا مناکر دوبارہ اسٹیج پر لیجایا گیا۔ تاہم وہ تقریب سے جلد ہی روانہ ہوگئے۔ بعد میں ڈپٹی چیف منسٹر نے انہیں حج ہاؤز دوبارہ طلب کرتے ہوئے سمجھا بجھاکر معاملہ کو رفع دفع کیا۔ اس طرح تقریباً ایک گھنٹہ تک یہ ڈرامہ بازی چلتی رہی۔ ڈپٹی چیف منسٹر کی موجودگی میں اس طرح مائیک پر اعلان کرتے ہوئے اسٹیج سے اتر جانا پروٹوکول کی خلاف ورزی تصور کیا جارہا ہے۔ اس اقدام سے سکریٹری اقلیتی بہبود نے خود اپنے لئے مسائل میں اضافہ کرلیا ہے۔ اقلیتی بہبود میں کرپشن اور بے قاعدگیوں کے الزامات کے علاوہ ایم ایس پربھاکر نے عہدیداروں کے درمیان داخلی اختلافات کا مسئلہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ عہدیدار کرسی کیلئے آپس میں لڑ رہے ہیں اور رقومات کیلئے بھی لڑائی جاری ہے ۔ اقلیتی بہبود کی یہ صورتحال انتہائی شرمناک ہے۔ ایم ایس پربھاکرنے دعویٰ کیا کہ وہ اقلیتی بہبود کے اداروں اور عہدیداروں کے بارے میں جو الزامات عائد کر رہے ہیں ، وہ ثابت کرسکتے ہیں۔ ایم ایس پربھاکر اس بات پر ناراض تھے کہ اقلیتی بہبود کے اداروں کی جانب سے انہیں تقاریب میں نظرانداز کیا جارہا ہے جبکہ پروٹوکول کے حساب سے انہیں مدعو کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بن بلائے مہمان کی طرح ہیں۔ میں حیدرآباد میں پیدا ہوا اور سیاسی زندگی کا آغاز بھی حیدرآباد سے ہوا۔ میرے والد ایم آر شام راؤ ریاست کے وزیر تھے اور اہم قائد رہے۔ وہ اقلیتوں سے کافی قریب تھے۔ والد اردو زبان سے اچھی طرح واقف تھے کیونکہ ان کی تعلیم اردو میں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے انہیں گزشتہ تین چار پروگراموں میں مدعو نہیں کیا گیا ہے ۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا اقلیتی بہبود کے پروگراموں میں غیر اقلیت کو شرکت کا حق نہیں ہے؟ انہوں نے محکمہ میں کرپشن اور عہدیداروں میں آپسی اختلافات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی انتہائی شریف آدمی ہیں لیکن محکمہ اقلیتی بہبود میں کرپشن عروج پر ہیں۔ صرف تین تا چار عہدیدار ہی سارے محکمہ کو نہیں چلاسکتے لیکن یہاں یہی ہورہا ہے۔ پربھاکر نے ان معاملات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ عہدیدار چیف منسٹر کا نام کم اور اپنے نام کی زیادہ شہرت کر رہے ہیں۔ انہوں نے ایس سی ، ایس ٹی ویلفیر محکمہ جات کی کارکردگی کا حوالہ دیا اور کہا کہ ان کی مثال اقلیتی بہبود کو پیش نظر رکھنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کیا ائمہ اور مؤذنین کے پروگرام میں ہندو شرکت نہیں کرسکتے؟ ایم ایس پربھاکر کی برہمی کے بعد سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل نے مدعو نہ کئے جانے غیر مشروط معذرت خواہی کی۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے کہا کہ محکمہ اقلیتی بہبود میں 90 فیصد کام اچھا ہے۔ تاہم بعض خامیاں ضرور موجود ہیں۔ شادی مبارک اور بعض دیگر اسکیمات میں بے قاعدگیوں کی شکایات ملی ہیں۔ سکریٹری اقلیتی بہبود کو جب دوبارہ حج ہاؤز طلب کیا گیا تو ڈپٹی چیف منسٹر سے انہوں نے شکایت کی کہ اب تک بے قاعدگیوں کے بارے میں اخبارات لکھ رہے تھے لیکن اب تو معاملہ برسر عام ہوچکا ہے ۔ لہذا مجھے اقلیتی بہبود سے چھٹی دیدی جائے۔