آج پھر اسکول دیر سے پہنچنے پر ماسٹر صاحب کی طرف سے ڈانٹ پڑی تو اس کا سارا دن ہی خراب گذرا اب تو وہ حالات کا عادی ہوچکا تھا ۔ افروز دسویں جماعت کا طالب علم تھا اور اسکول کے علاوہ بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا اور پھر خود رات کو دیر تک پڑھتا رہتا ۔
اس کی والدہ لوگوں کے گھروں میں کام کرکے روزی روٹی کا بندوبست کرلیا کرتی تھیں ۔ افروز ساتویں میں تھا جب اس کے ابو کا انتقال ہوگیا ۔افروز بچپن سے ہی ڈاکٹر بننے کا خواہشمند تھا ۔ بس اس کی ایک خامی جو سب کو ناپسند تھی ۔ ایک تو وہ رات دیر تک پڑھتا رہتا اور پھر اسکول تک پیدل راستہ بھی زیادہ تھا ۔ مگر وہ غربت کا شکار ہوئے تھے رشتے داروں نے بھی ان سے منہ موڑ لیا تھا لیکن انہو ںنے ہمت نہیں ہاری اور افروز محنت کرتا رہا ۔ افروز نے فرسٹ ڈیویژن میں میٹرک پاس کیا تو اس کے گھر میں نوبت فاقوں تک پہونچ چکی تھی ۔ لیکن اس نے ہمت نہیں ہائی اور مسلسل محنت کرتا رہا اسے اپنی محنت کی بدولت امتحان میں شاندار کامیابی حاصل ہوئی مگر میڈیکل کالج کے اخراجات اب اس کے بس سے باہر ہوچکے تھے ۔ کچھ اساتذہ کی مدد سے اسے اسکالرشپ مل گئی ۔ آخر اس کی محنت رنگ لائی اور اس کا ڈاکٹر بننے کا خواب پورا ہوگیا ۔ اپنی قابلیت کی وجہ سے افروز کا شمار بہترین ڈاکٹرز میں ہونے لگا ۔ افروز کی والدہ ہمیشہ اسے ایمانداری سے کام کرنے کی نصیحت کرتیں ۔ سب لوگ افروز سے خوش تھے اس طرح افروز نے ثابت کردیا کہ محنت میں ہی انسان کی عظمت ہے ۔