عام آدمی کی خاص بات
حیدرآباد ۔ 3 ۔ ستمبر : ( نمائندہ خصوصی ) : سانپ کا نام سنتے ہی بچے ہوں یا بڑے ان پر ایک خوف سا چھا جاتا ہے اور سخت سے سخت دل انسان یا بہادر سے بہادر انسان بھی لرز اٹھتا ہے ۔ مگر آج ہم ایک ایسے آدمی سے واقف کرارہے ہیں جسے دیکھ کر خود سانپ ڈر کر راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ محمد انور کی جو سانپوں کو صرف ہاتھ کے اشارے سے قابو میں کرلیتا ہے اور اس کو کچھ اس طرح پکڑتا ہے جسے گاجر مولی ۔ دراصل محمد انور خاندانی سپیرا ہے زہریلے سانپوں کو پکڑنا اور ان کا کھیل تماشہ بنادینا ان کا محبوب مشغلہ ہے ۔ محمد انور نے بتایا کہ وہ شاستری پورم کے قریب میدر دتوپلی میں رہتے ہیں جہاں جملہ 15 مسلم خاندان سکونت پذیر ہیں اور یہ سارے لوگ پیشے کے اعتبار سے سپیرے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ شہر کے کونے کونے سے لوگ ان کے کے پاس آتے اور کہتے ہیں کہ ہمارے گھر یا باغ میں ، گودام میں سانپ ہے اس کو پکڑنا ہے ۔ ہم ان سے 300 سے 1000 روپئے تک معاوضہ لے کر سانپ پکڑلیتے ہیں اور یہی ان کے روزگار کا ذریعہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سانپ دراصل بہرا ہوتا ہے صرف اشاروں پر حرکت کرتا ہے ۔ جسے پکڑنے کے بعد سب سے پہلے وہ زہریلی تھیلی کو علحدہ کردیتے ہیں تاکہ آزاد ہونے پر وہ کسی کو نقصان نہ پہنچائے ۔ انہوں نے کہا کہ سانپ پکڑنے کے بعد وہ اسے زو حکام کے حوالے کردیتے ہیں کیوں کہ گھر میں سانپ رکھنا خلاف قانون ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ وقفے وقفے سے فاریسٹ ڈپارٹمنٹ والے ان کے مکان پر دھاوا ڈال کر ان پر ظلم کرتے ہیں ۔ حالانکہ وہ لوگوں کو اس موذی جانور سے بچانے کا کام کرتے ہیں ۔ ان کے پاس کسی قسم کا کوئی روزگار نہیں ہے اور یہ سارا خاندان انتہائی غربت اور مفلسی کی زندگی گذارتے ہیں ۔ مگر حکومت انہیں کسی قسم کی کوئی ملازمت فراہم نہیں کرتی ۔ اگر کہیں سے کوئی اطلاع ملتی ہے کہ سانپ پکڑنا ہے تو کسی حد تک ان کی روزی روٹی کا انتظام ہوجاتا ہے ۔
محمد انور نے بتایا کہ بسا اوقات زو والے بھی سانپ کو لینے سے انکار کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے پاس پہلے سے ہی بہت سانپ موجود ہیں ۔ ایسی صورت میں وہ جنگل لے جاکر چھوڑ دیتے ہیں ۔ سانپ کی غذا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا گرگٹ اور مینڈک سانپ کی مرغوب غذا ہے ۔ ہم نے محمد انور سے جب پوچھا کہ کیا سانپ نے انہیں کبھی کاٹا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ الحمدﷲ چالیس سال ہوگئے آج تک کبھی ایسا حادثہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو سانپ کاٹ لے تو اس کے لیے سب سے عمدہ دواخانہ عثمانیہ ہاسپٹل ہے جہاں سانپ کاٹنے کے ایک گھنٹہ کے اندر اندر مریض کو لے جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا احتیاطی اقدامات کے طور پر سانپ کاٹنے کے مقام کے بازو میں فورا کپڑا یا رسی سے باندھ دینا چاہئے تاکہ زہر آگے نہ پھیل سکے ۔ بہر حال محمد انور سے ملنے کے بعد یہ خیال آیا کہ ایک طرف محمد انور جیسا غریب آدمی ہے جو لوگوں کی زندگیاں بچانے اور اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے سانپوں سے لوہا لینا ہے اور دوسری طرف فیصل دیانی اور سالم حمدی جیسے انسانیت سے عاری افراد بھی اس سماج میں موجود ہیں جو اپنی ہوس مٹانے اور لوگوں پر ظلم ڈھانے کے لیے سانپوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان دنوں Snake gang سے مشہور میڈیا کی سرخیوں میں ہے اور جس کے خلاف پورا سماج سخت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کررہا ہے ۔۔