جاویدہ بیگم ورنگلی
کس قدر تعجب کی بات ہے کہ جس عظیم ہستی کو ہم اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، جن کی ذات مبارک پر عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں، اس عظیم ہستی کو ہم لوگوں نے صرف ایک مذہبی رہنما کی حیثیت دے دی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کسی دیندار شخص یا دینی جماعت کی جانب سے قوت و اقتدار کی باتیں سنائی دیتی ہیں تو لوگوں کو بڑی حیرت ہوتی ہے اور وہ یہ بات سمجھ نہیں پاتے کہ دین کا سیاست سے کیا تعلق ہے؟۔ ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاست تو دُنیاداری کا کام ہے، گندگی کا ڈھیر ہے اور ایک ایسا دَلدل ہے، جس میں پھنسا ہوا شخص نکل نہیں پاتا، بلکہ اسی دَلدل کا ہوکر رہ جاتا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اقامتِ دین کا کام کرنے والی جماعت کو سیاست سے دُور رہنا چاہئے، کیونکہ سیاست تو صرف دنیا پرستوں کے لئے ہے اور اللہ کے رسولﷺ نے کبھی دنیا طلب نہیں کی، بلکہ آپﷺ یہ دعاء فرماتے کہ ’’اے اللہ! مجھے غریبوں کے ساتھ رکھ اور غریبوں کے ساتھ اُٹھا‘‘۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے‘‘ (سورۃ المائدہ۔۳) یعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دین کی تکمیل کی گئی، آپﷺ کو ایک مکمل دین دے کر بھیجا گیا اور اسلام میں دین اور دنیا کی کوئی تخصیص نہیں رکھی گئی۔ اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر جہاں اعتقادی انقلاب تھا، وہیں پوری اہمیت کے ساتھ سیاسی انقلاب بھی تھا، کیونکہ خدا کے قوانین کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ضروری ہے کہ قوت و اقتدار بھی حاصل ہو۔ حکم دینے والا حکم منوانے کی پوزیشن میں ہو اور اسے حکم کے نفاذ کی قوت و طاقت حاصل ہو، جب کہ یہ کام محض زبانی وعظ و نصیحت سے نہیں ہوسکتا۔ تاریخ میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ بغیر سیاسی جدوجہد کے کوئی انقلاب آیا ہو۔ یہ بات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روز اول ہی سے جانتے تھے اور لوگوں نے بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ’’بس وہ ایک کلمہ ہے، اسے اگر مجھ سے قبول کرلو تو اس کے ذریعہ تم سارے عرب کو زیر کروگے اور سارا عجم تمہارے پیچھے چلے گا‘‘۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپﷺ اپنے رفیقِ غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اپنے وطن مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے، لیکن صرف دس سال کی قلیل مدت میں چند محلوں پر مشتمل مدینہ کی مملکت دس لاکھ سے زائد مربع میل پر پھیل گئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست میں قوت سے زیادہ زیرکی و تدبیر کام کرتی نظر آتی ہے، کیونکہ آپﷺ جب مدینہ پہنچے تو وہاں کے ماحول کو سازگار بنانے کے لئے پہلے انصار و مہاجرین کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔ پھر یہودی قبائل سے جنگی و سیاسی معاہدہ کرکے یہود و مشرکین اور مسلمانوں کو ایک سیاسی نظم میں پرویا۔ یہودی قبائل سے جو معاہدہ کیا گیا، وہ تحریری شکل میں تھا، جس کو بجاطورپر دنیا کا پہلا دستوری معاہدہ کہا جاسکتا ہے۔ یعنی آپﷺ نے بڑے ہی تدبر سے متضاد عناصر کو چند ہی مہینوں میں ایک سیاسی وجود بنادیا اور کمال یہ ہے کہ اس تحریری دستور میں واضح طورپر سیاسی و قانونی اختیار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دیا گیا۔
صلح حدیبیہ آپﷺ کی سیاسی بصیرت کی روشن مثال ہے، جس کو قرآن پاک میں ’’فتح مبین‘‘ کہا گیا ہے۔ اس معاہدہ نے ایک ایسا راستہ ہموار کیا، جس پر چل کر اسلامی انقلاب کی طاقت دو برس کے اندر اس قدر بڑھ گئی کہ آپﷺ مکہ میں فاتحانہ شان سے داخل ہوئے۔ اس معاہدہ سے جو مقاصد حاصل ہوئے، وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں، یعنی دس سال تک امن و امان رہا اور امن کی حالت میں اسلام کو سمجھنے کا لوگوں کو موقع ملا۔ اسلام تیزی سے پھیلنے لگا اور جنگ و جدال سے نجات پاکر اسلامی ریاست کے نظم و نسق پر توجہ دینے کے لئے آپﷺ کو یکسوئی حاصل ہوئی۔ جو علاقے مدینہ منورہ کے زیر نگیں آگئے تھے، ان تک دعوتِ دین پہنچانے اور ان کی تعلیم و تربیت کے لئے سہولت حاصل ہوئی، یہاں تک کہ آپﷺ کی تعلیم و تربیت نے مفتوح علاقوں کی اخلاقی کایا پلٹ دی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ نے پوری توجہ کے ساتھ حالات کا تجزیہ کیا اور پوری شجاعت کے ساتھ ہر چیلنج کو قبول کیا۔ بڑی حکمت کے ساتھ ظلم و فساد کی سرکوبی کی، بڑی دانائی و حکمت کے ساتھ بکھرے ہوئے قبائل کو یکجا کیا اور انھیں جاہل قیادت سے نجات دِلائی۔ خانہ جنگی کے ماحول سے نکال کر امن کا ماحول فراہم کیا، معاشرہ کو اخوت و محبت اور مساوات کی بنیادوں پر استوار کیا۔ آپﷺ نے اللہ کے دین کو عملاً نافذ کرکے اسلام کے نام لیواؤں کو یہ بتادیا کہ سیاسی غلبہ حاصل کئے بغیر زمین پر اللہ کے دین کو قائم نہیں کیا جاسکتا۔
یہ دین جدوجہد اور اخلاص چاہتا ہے، جان و مال کی قربانی مانگتا ہے۔ یقیناً جو لوگ دین میں مخلص ہوں گے، وہی اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے، جب کہ اخلاص کو جانچنے کا پیمانہ یہ ہے کہ کون تاویلات کا سہارا لے کر گوشۂ عافیت میں بیٹھنا چاہتا ہے اور کون جان و مال کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے خوشی خوشی آگے بڑھ کر عملاً اپنی محبت کا ثبوت دیتا ہے۔