محدثین و فقہاء کے فرائضِ منصبی

مرسل : ابوزہیر نظامی

اس سے مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ظاہر ہے کہ محدثین کا اتنا ہی کام ہے کہ روایتیں فقہاء کو پہونچا دیں تاکہ وہ خوض و فکر کر کے مفید مفید مضامین نکالیں جن سے راویوں کی سمجھ قاصر ہو ‘کیونکہ جمیع مالہ و ماعلیہ کی رعایت کرنی ہر راوی کا کام نہیں جیساکہ اِس روایت سے ظاہر ہے جو کنز العمال میں ہے ’’ عن الحسن مرسلاً قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمۃ العلماء الرعایۃ و ہمۃ السفھا ء الروایۃ رواہ ا بن عساکر‘‘ اور مختصر کتاب ’’النصیحۃ لاہل الحدیث‘‘ تصنیف حافظ ابوبکر خطیب بغدادیؒ میں لکھا ہے’’ و روی باسنادہ الی علی ابن موسیٰ الرضیٰ عن جدہ عن آبائہ ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال کونوا دراۃ ولا تکونوا رواۃ ‘‘ یعنی ائمہ اہل بیت کی اسناد سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تم سمجھ حاصل کرو روایت کرنے والوں میں مت ہو ۔ غرضکہ متعدد روایتوں سے ثابت ہے کہ مقصود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف روایت حدیث نہیں بلکہ احادیث میں غور کرنا اور فقیہوں کو پہونچانا ہے‘جن کا کام یہ ہے کہ جیسی جیسی ضرورتیں پیش آئیں ، وہ ہر امر کی رعایت کر کے اُن احادیث سے استنباط مسائل کیا کریں ۔
فقہ کے معنی
ہر راوی حدیث کو فقیہ اس وجہ سے نہیں کہہ سکتے کہ نہ لغت کی رو سے اطلاق اس لفظ کا اُن پر ہوسکتا ہے نہ اصطلاح اورعرف شرعی سے اس لئے کہ فقہ کے لغوی معنی شق و فتح کے ہیں جیسا کہ علامہ زمخشری نے فائق میں لکھا ہے ’’ الفقہ حقیقۃ الشق و الفتح والفقیہ العالم الذی یشق الاحکام و یفتش عن حقائقہا و یفتح ما استغلق  منہا‘‘ یعنی فقہ کے اصلی معنی شق و فتح کے ہیں اور فقیہ اُس عالم کو کہتے ہیں جو احکام میں موشگا فیاں کرکے اُن کے حقائق کو معلوم کرے اور مشکل اور مغلق امور کو کھولدے انتہی ۔ چونکہ راوی کو نہ شق احکام سے تعلق ہے نہ فتح مغلقات سے ،غرض اس لئے وہ فقیہ نہیں ہوسکتا اور جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ کا اطلاق فرمایا ہے وہاں یہ بھی تصریح فرما دی کہ بہتیرے راوی فقیہ نہیں ہوتے ،جس سے صاف معلوم ہوگا کہ ہر محدث کو فقیہ نہیں کہہ سکتے ۔(حقیقۃ الفقہ، حصہ اول)