محبوب سبحانی رحمۃ اللہ علیہ

محمد بدیع الدین نقشبندی

نبی آخر الزماں سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد تمام امور دین و دنیا خلفائے راشدین اور ان کے مشیروں سے طے پاتے رہے، جو شرف صحابیت سے سرفراز تھے۔ صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین سے جو متصل زمانہ تھا، وہ محدثین، فقہاء اور ائمہ حضرات کا تھا، جو سابقہ کام کی حفاظت و صیانت میں مشغول رہے۔ یہ حضرات چوتھی صدی ہجری تک ہی سرگرم رہے، پانچویں صدی ہجری سے مستشرقین، عیسائیوں اور یہودیوں نے اسلام پر منظم حملے شروع کردیئے۔ فلسفہ اور منطق کے ذریعہ بھی اسلام پر حملے کئے گئے۔ بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اسلامی مملکتیں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گئیں، یعنی عالم اسلام میں انتشار پیدا ہوگیا۔ اسی دورِ انتشار میں پانچویں صدی کے اختتام پر حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی پیشین گوئی کے مطابق ایک جلیل القدر بزرگ کی ولادت ایران کے صوبہ طبرستان کے علاقہ جیلان میں ۲۹؍ شعبان المعظم ۵۷۰ھ کو ہوئی، جن کا نام نامی اسم گرامی سید عبد القادر، کنیت ابومحمد اور لقب محی الدین تھا۔ والد گرامی سید ابوصالح جنگی دوست رحمۃ اللہ علیہ گیارہ واسطوں سے نجیب الطرفین سید ہیں۔
حضرت پیران پیر غوث اعظم دستگیر رحمۃ اللہ علیہ نے حصول علم کے لئے بہت سختیاں جھیلیں اور علم تفسیر، حدیث، ادب، فقہ، انشاء پردازی، ریاضی، منطق، علم الانساب، یعنی تیرہ علوم پر دسترس حاصل کی، لیکن جب آپ سے دریافت کیا گیا کہ ’’بزرگی کیسے حاصل ہوئی؟‘‘ تو فرمایا: ’’علم و عمل، حق گوئی اور راست بازی سے‘‘۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت غوث اعظم کے بارے میں فرمایا کہ ’’آپ ایمان و یقین کی دلیل اور اکابر علماء کے رہبر ہیں۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام میں جس طرح خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سید الانبیاء ہیں، اسی طرح سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تمام اولیاء کرام میں سید الاولیاء ہیں‘‘۔
ایک موقع پر حضرت پیران پیر دستگیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’میری تکذیب تمہارے لئے زہر قاتل ہے۔ اگر شریعت میرے منہ میں لگام نہ لگائی ہوتی تو میں تمھیں یہ بتاتا کہ تم کیا کھاکر اور کیا چھپاکر آئے ہو‘‘۔ جب آپ نے فرمایا کہ ’’میرا قدم ہر ولی کی گردن پر ہے‘‘ تو تمام اولیاء کرام نے اپنی اپنی گردنیں جھکالیں۔ یقیناً آپ تمام اولیاء کے سردار اور اس امت کے غمخوار ہیں۔