شہباز عسکری
اکثر مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات، روز قیامت اور جنت و دوزخ پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ حصول جنت کی آرزو میں پنجوقتہ نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، استطاعت ہو تو زکوۃ اور حج ادا کرتے ہیں، لیکن ہمارے یہ سارے اعمال اس وقت تک اَدھورے ہوتے ہیں، جب تک کہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اتنے سرشار نہ ہو جائیں کہ آپﷺ کی اطاعت اور اتباع کی دن رات کوشش نہ کرتے رہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار صرف کلمۂ طیبہ کے ذریعہ ہی کافی نہیں، بلکہ ہمارا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا، جب تک کہ آپﷺ سے ہم اپنے ماں باپ، اولاد، مال و دولت، دنیا کی ہر چیز، یہاں تک کہ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت نہ کریں۔ یہ صرف زبانی اقرار نہ ہو، بلکہ دل ہمارا اس کی گواہی دے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہماری دولت، ہماری اولاد، ہمارے والدین، آباء و اجداد اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ عزیز ہیں‘‘۔ اس بات کا ثبوت حضرت علی مرتضیٰ کے ساتھ ساتھ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح دیا کہ وہ دن رات اپنی زندگیوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور عمل کی روشنی میں ڈھالنے کی سعی کرتے۔ صحابۂ کرام کی محبت کا یہ عالم تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب وضوء فرماتے تو آپﷺ کے وضوء کا پانی زمین پر نہ گرنے دیتے اور آپﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلا ہر لفظ ان کے لئے ہدایت نامہ ہوتا۔
صحابۂ کرام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں نعتیں لکھیں اور پڑھیں، لیکن آپﷺ نے انھیں منع نہیں فرمایا۔ حضرت علی، حضرت حسان بن ثابت اور کئی دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نعتیہ اشعار آج بھی لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔
تاریخ کے ہر دَور میں ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے نبی و رسول بھیجے اور ان کے ذریعہ بھٹکے ہوئے لوگوں نے اللہ کی بندگی کا راستہ اختیار کیا، تو پھر کیا ہم پر یہ فرض نہیں کہ ہم قرآنی احکامات اور آپﷺ کی سنتوں کو اپنائیں۔ ہم کو قرآن پاک کا جو عظیم تحفہ ملا ہے، وہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے ادا ہوئے الفاظ کا مجموعہ ہے۔ اس کے علاوہ جن شرعی احکامات پر عمل کرکے ہم مطمئن ہیں، ان کی تفصیل اور ان کی ادائی کے طریقے ہمیں قرآن پاک میں نہیں، بلکہ آپﷺ کے عمل اور آپ کی احادیث سے ملتے ہیں، لہذا بحیثیت امتی آپﷺ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کے خطاب سے نوازا اور انھیں اپنا حبیب کہا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہم مسلمانوں کو یہ کتنا عظیم تحفہ ملا کہ ہم ایک ایسا عمل کرتے ہیں، جس میں نہ صرف فرشتے بلکہ خود اللہ تعالیٰ بھی شریک ہے۔ وہ عمل ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کے نذرانے پیش کرنا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود اور خوب سلام بھیجو‘‘۔ (سورۂ احزاب)