متحدہ ریاست میں حیدرآبادی تہذیب و ثقافت سے کھلواڑ

حیدرآباد۔27فبروری(سیاست نیوز)حیدرآباد قطب شاہی اور آصف جاہی دور حکومت سے ہی فرقہ وارانہ اہم اہنگی کا گہوارہ رہا ہے اوریہاں کی مشترکہ تہذیب اور قیمتی ثقافت ساری دنیا کیلئے مثال تھی جس کو متحدہ ریاست کے قیام کے بعد منظم انداز میں تباہ کیا گیابالخصوص 1970کے بعد سے حیدرآبادی تہذیب اور ثقافت سے کھلواڑ کیا گیا۔ معروف سماجی کارکن محترمہ انورادھا ریڈی نے ایک انٹرویو میںاس بات کادعویٰ کیا ۔ انہوں نے نظام ہشتم کے دور حکومت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ بظاہر نظام ہشتم حکمران تھے مگر انتظامیہ پر مکمل اجارہ داری رعایہ کی تھی اور نظام ہشتم بنارعایہ کی منظور ی کے کوئی فیصلہ نہیں لیتے تھے مگر آصف جاہی دور کے خاتمہ کے بعد حیدرآباد میں جمہوری دور کا آغازہوا جو جمہوری نظام کے عین مخالف تھااور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ انورادھا ریڈی نے کہاکہ آصف جاہی دور میں ایک سے زائد زبانوں کو سرکاری زبان کو درجہ دیا گیا تھا مگر متحدہ ریاست میں بعد تلگو زبان کا فروغ کے نام پر آصفیہ دور کی سرکاری زبانوں خاص طور پر اُردو کو تباہ کرنے کی سازشیں کی گئی اوراس کا راست اثر اُردو داں طبقہ کی معیشت پر پڑا ۔ ۔ محترمہ انورادھا ریڈی نے کہاکہ ماضی کی غلطی اور کوتاہیوں کا جائزہ لینے کے بعد مجوزہ ریاست تلنگانہ میں لسانی تہذیب اور قیمتی ثقافت کے تحفظ میںٹھو س اقدامات لازمی ہیں جو متحدہ ریاست میں استحصال کا شکار طبقات کی ترقی میں مددگار ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ 58سالہ جدوجہد کے بعد علیحدہ تلنگانہ کی تشکیل کا خواب پورا ہو رہا ہے تو ایسے وقت مجوزہ ریاست میںبرسراقتدار انے والے جماعتوں پر یہ ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں کہ وہ پسماندہ اور پچھڑے طبقات سے وعدوں پر نہ صرف عمل کریں بلکہ مراعات و تحفظات کو پسماندگی کاشکار طبقات تک پہنچانے کی راہیں ہموار کریں۔

انہوں نے کہاکہ 58سالوں میںپرانے شہرمیں مختلف ہنر کے حامل طبقات کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے باوجوداسکے بنیادی سہولتوں سے محروم کارچوب‘ زردوزی کے ماہرکاریگر اپنے ہنر اور حیدرآباد کی قیمتی ثقافت کوبرقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔انہوں نے ایسے کاریگروں کو حکومت کی جانب سے رعایتوں کی فراہمی کو مذکورہ تجارتی شعبہ ناصرف ترقی یافتہ بلکہ حیدرآباد کی قدیم ثقافت کا فروغ اورترقی کوبھی یقینی قرار دیا۔ انہوں نے کہاکہ علیحدہ تلنگانہ تحریک کے دوران سیاسی جماعتوں نے پسماندگی کاشکار طبقات سے جو وعدے کئے ہیں ان پر عمل آواری ہی پچھڑے ‘ پسماندہ اور اقلیتی طبقات کی حالت زار کو تبدیل کرنے میں مددگار ہوگی۔انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کو بارہ فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ سیاسی جماعتوں نے تلنگانہ تحریک کے دوران کیا ہے اس پر عمل کیلئے خود مسلمانوں کو سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ جس طرح متحدہ طور پر علیحدہ تلنگانہ تحریک چلائی گئی اسی طرح اپنا حق حاصل کرنے مسلمانوں میں شعور بیداری ضروری ہے ۔ انہوں نے کہاکہ تحفظات فراہم کرنے کے مطالبات سے حالت میںتبدیلی ممکن نہیں ہے۔ اس کیلئے سیاسی جماعتوں پر دبائو کی حکمت ِ عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے حکومت کی معلنہ فلاحی اسکیمات سے پسماندگی کا شکار طبقات کوواقف کروانے اور حکومت کی رعایتوں سے استفادہ اٹھانے میںعوامی نمائندوں‘ مذہبی رہنمائوں اور سماجی جہدکاروں کے رول کو بھی اہمیت حامل قراردیااور کہاکہ حیدرآباد کی قدیم تہذیب اورثقافت ‘ فرقہ وارانہ ہم اہنگی کی بازیابی ہی علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کہ مقصد کی تکمیل ہوگا۔