حافظ ممتاز احمد صدیقی
حضرت نبی اکرم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت مبارکہ جس ماحول و معاشرہ میں ہوئی، وہ با لکل کفر و شرک کی تاریکیوں میں ڈوبا ہو ا اور توہمات و باطل افکار و اعتقادات کی اسیری میں جکڑا ہو ا تھا، عقیدۂ توحید سے محرومی نے اس کو بد شگونی کے عمیق غاروں میں ڈھکیل دیا تھا، اپنے خالق ومالک کو بھولے ہوئے اس کے در سے ٹوٹے ہوئے انسان در در کی ٹھوکریں کھا رہے تھے، خوف خدا و خوف آخرت سے بے نیازی نے ان کو ہر چھوٹی بڑی حقیر سے حقیر ترین شئی سے ڈر و خوف میں مبتلاء کر دیا تھا، اسی ڈر و خوف کے زیر اثر مشرکین عرب ماہ صفر اور ماہ شوال کو منحوس سمجھتے تھے، اور ان مہینوں میں اسی بداعتقادی کی وجہہ نکاح و شادی کر نے سے سخت احتراز کرتے، کسی نئے کام کے آغاز یا کسی مہم کے سر انجام دینے سے باز رہتے تھے ان کا یہ عقیدہ تھا کہ ان مہینوں کے نحس ہو نے کی وجہہ ان مہینوں میں کیا جانے والا کوئی کام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا، اس رسم بد کی بیخ کنی کیلئے اسلام نے ماہ شوال کو مکرم اور ماہ صفر کو مظفر کی صفت سے متصف کیا ۔ دل و دماغ سے اس بداعتقادی کے جراثیم کوکرید کر نکال باہر کر نے کیلئے مـزید عملی اقدامات کئے۔ چنانچہ حضرت نبی مکرم سید عالم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺنے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (اُم المومنین) سے ماہ شوال المکرم میں نکاح فرما یا، اُم المومنین رضی اللہ عنہا فرما تی ہیں کہ مجھ سے زیادہ اور کو ن خوش نصیب ہو سکتا ہے۔ یعنی کسی دن یا مہینہ میں کوئی نحوست ہو تی تو پھر مجھ کو یہ مقام بلندکس طرح مل سکتا تھا اور یہ مرتبت رفیعہ کس طرح میرے حصّہ میں آ سکتی تھی۔ معاشرہ سے اس بد شگونی و بد اعتقادی کے آثار کابالکلیہ خاتمہ کرنے کیلئے اُم المومنین رضی اللہ عنہا اپنے خاندان کی لڑکیوں کے نکاح کیلئے ماہ شوال المکرم کا انتخاب فرماتیں چونکہ دورجاہلیت کے بے بنیاد اعتقادات و توہمات میں سے ایک ’’ماہ صفر‘‘ کا نحس ہونا بھی تھا اس لئے ماہ صفر کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ مشرکین عرب ماہ صفر کو منحوس سمجھتے ہیں توآپ ﷺ نے ایک مختصر اور بلیغ جملہ ’’لا صفر‘‘ یعنی ماہ صفر میں کوئی نحوست نہیں ارشاد فر ما کر فکر و فہم کو جلا بخشی ہے اور اس بد شگونی و بداعتقادی کے جال میں محبوس معاشرہ کو چھٹکارا دلایا ہے۔
ماہ صفر المظفر کو تیرہ تیزی کا مہینہ بھی کہتے ہیں، بعض ضعیف الاعتقاد اس ترقی یافتہ دور میں آج بھی اس مہینہ کو مصائب و آلام ، حوادث و آفات کے نزول کا مہینہ مانتے ہیں اور اس ماہ کے نحس ہو نے کا اعتقاد رکھتے ہیں، بعضوں نے من گھڑت روایات کے حوالے سے جو بعض غیرمستند کتب میں منقول ہیں اس بد عقیدگی کو مضبوط و مستحکم کر نے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے ایک موضوع روایت ،فکر صحیح و صحت اعتقاد سے محروم افراد بیا ن کر تے ہیں کہ ’’سال تمام میں جتنی بلائیں نازل ہو تی ہیں اُتنی ماہ صفر میں نازل ہو تی ہیں اور ماہ صفر میں نازل ہو نے والی ساری بلائیں صرف تیرہ تیزی یعنی تیرہ صفرالمظفر کے دن نازل ہو تی ہیں،،۔
وور جاہلیت میں بعض عربوں کا ماننا تھا کہ صفر سے مراد وہ سانپ ہے جو ہر ایک انسان کے بطن میں ہو تا ہے اور شدید بھوک کے وقت ڈستا ہے اور ایذاء پہونچاتا ہے، بعضوں کا خیا ل تھا کہ صفر سے مراد بطن کے وہ جراثیم ہیں جو بوقت بھوک کاٹتے ہیں، اس کی وجہہ آدمی کا رنگ زرد ہو سکتا ہے اس سے ہلاکت بھی ہو سکتی ہے، اور اس کے اثرات بد دوسروں میں سرایت کر سکتے ہیں، اس لئے بھی وہ’’صفر‘‘ کو منحوس جانتے تھے۔ما ہ و سا ل یا دنو ں میں نحو ست کو ما ننا گو یا زما نے کو بر ا کہناہے چو نکہ زمانے کو بر ا کہنا اللہ سبحا نہ کو بر ا کہنے اور اسکی قدرت و سلطنت میںنقص ثا بت کرنے کے مترا دف ہے۔ کیونکہ زما نہ کو ئی اور شئی نہیں بلکہ وہ تو اللہ سبحا نہ کا بنا یا ہو ا ہے حدیث قدسی میں ارشا د ہے ’’لا تسبو ا الدھر ا نا الدھر‘‘۔
اللہ کے نبی سیدنا محمدرسو ل اللہ ﷺ کی کئی ایک جا مع دعا ئیں ہیں جو ایمان و ا لوں کے حرز جان ہیں جو عبدیت و بندگی کے پاکیزہ جذبات اور اسکی عظمت وہ قدرت کے اعتراف و اظہا رسے لبریز ہیںان میں سے ایک دعا ء کے کلما ت یہ ہیں ’’ ما شاء اﷲ کا ن ومالم یشاء لم یکن‘‘ اللہ سبحا نہ و تعالیٰ جو چا ہے وہی ہو تا ہے اور جو نہ چا ہے نہیں ہوتا۔ ان جیسے کما ل ایمان سے متصف اللہ کے نیک بندے ہر آن اللہ کے حضور رجو ع رہتے ہیں‘ حو ا دث و آ لا م ضرر و نقصا ن ہر حا ل میں اسی سے لو لگا ئے رہتے ہیں ‘حق کے سو ا کسی اور کی طرف انکی نظر اٹھنے نہیں پا تی‘ اللہ پر تو کل و اعتما د ان کو را ہ حق سے بھٹکنے نہیں دیتا‘ نعمتوں پر شکر گزا ری مصیبت و پریشا نی میں صبر و بند گی ان کی زندگی کی پہچا ن ہو تی ہے۔ البتہ وہ مسلمان جو مومن و مسلم ہو نے کے باوجود کتاب و سنت سے دوری ،علم صحیح و تربیت اسلامی سے محرومی کی وجہہ جاہلانہ اوہام و خرافات کاشکا ر ہیں ماہ صفر کے حوالے سے جن جاہلانہ تصورات و اعمال اور فرسودہ افکار و اعتقادات و توہمات کے اسیر ہیں ان کیلئے قرآن کا پیغام یہ ہے:
’’ اے ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدم بقدم نہ چلو وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (البقرہ ؍ ۲۰۸)
موجودہ مسلم سماج اگر اس آیت پاک کو سرمہ بصیرت بنالے تو پھر سماج سے فرسودہ رواجات، بدعات و خرافات دور ہو سکتے ہیںاور جاہلانہ افکار کی اسیری سے وہ رہائی پا سکتے ہیں۔ ایمان والوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی اعتقادات و اعمال کا عملی پیکر بنیں، اور فر سودہ رسوم و رواجات، بیجااوہام و خرافات ، خلاف اسلام عادات وبدعات کے شکنجہ میں جکڑی ہوئی انسانیت کو عملی پاکیزہ اسلامی فطری راہ دکھا کر اس سے اس کو رہائی دلائیں۔