حافظ سید شاہ مدثر حسینی
اسلام دین حق و صداقت ہے، جس نے عقیدۂ توحید و رسالت کے انوار سے کائنات کو روشن و منور کیا اور ہر قسم کی باطل رسومات و مشرکانہ توہمات کا خاتمہ کیا۔ دَورِ جاہلیت کی فرسودہ رسومات اور مشرکانہ توہمات میں یہ بات بھی تھی کہ لوگ ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے تھے اور اس سے بدشگونی لیتے تھے۔ اُس دَور میں لوگوں کا یہ ایقان تھا کہ اس ماہ کی آمد کی وجہ سے وہ مصائب و بلیات میں گھر جاتے ہیں اور معیشت تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ وہ یہ بھی عقیدہ رکھتے تھے کہ اس ماہ کے سبب وہ بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اُن کا نظریہ تھا کہ اس ماہ میں نحوست ہوتی ہے، لہذا کوئی بڑا کام یا کسی نئی مہم کا آغاز اس ماہ میں نہیں کرنا چاہئے۔ اِس طرح کے باطل عقائد اُن کے دِلوں میں جگہ بنائے ہوئے تھے۔
اسلام نے اس قسم کے تمام باطل تصورات کو ختم کردیا اور اللہ پر ایمان و ایقان کا درس دیا کہ مصائب و آلام کا تعلق کسی ماہ و سال سے نہیں ہے، بلکہ وہ نیکو کاروں کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے امتحان و آزمائش اور گنہگاروں کے حق میں اُن کی بدعملیوں کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جو مصیبت بھی تمھیں پہنچتی ہے (اس بدعملی) کے سبب پہنچتی ہے، جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ بہت سی نافرمانیوں کو درگزر کردیتا ہے‘‘ (سورۃ الشوریٰ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہلیت کے عقائد باطلہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ’’کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی، بدشگونی جائز نہیں، اُلو اور صفر کے مہینہ میں کوئی نحوست نہیں‘‘۔ (صحیح بخاری)
بعض لوگ آج بھی ماہ صفر میں کسی اہم کام کے لئے سفر کرنا مناسب نہیں سمجھتے، جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے موقع پر مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی جانب سفر کا آغاز ماہِ صفر میں فرمایا تھا۔ ایک روایت کے مطابق ماہِ صفر کے آخر میں سفر کا آغاز فرمایا تھا۔ یہ سفرِ مقدس دین اسلام کی غیر معمولی ترقی اور مسلمانوں کی خوشحالی اور فتح و نصرت کا باعث ثابت ہوا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نیک فال پسند تھا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ایک کی بیماری دوسرے کو نہیں لگتی، نہ بدفالی کوئی چیز ہے، البتہ مجھے نیک فال پسند ہے‘‘۔ لوگوں نے پوچھا: ’’نیک فال کیا چیز ہے؟‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمدہ لفظ جو انسان دوسرے سے سنتا ہے‘‘ (بخاری و مسلم) واضح رہے کہ نیک فال اللہ تعالیٰ سے حسن ظن کی علامت ہے، جب کہ بدفالی اللہ تعالیٰ سے سوئے ظن کی علامت ہے۔