ڈاکٹر عاصم ریشماں
آج سے چودہ سو برس قبل سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو جو عظیم پیغام دیا ہے، وہ تاریخ اسلام میں حجۃ الوداع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب میدان منٰی میں تشریف لے گئے تو قصویٰ نامی اونٹنی پر سوار تھے، جہاں آپﷺ نے ایک لاکھ سے زائد پرستارانِِ توحید کے روبرو ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اے لوگو! تم پر ضروری ہے کہ میری آج کی باتیں اُن لوگوں تک پہنچادو، جو یہاں حاضر نہیں ہیں‘‘۔ پھر فرمایا: ’’اے لوگو! جہالت کے جتنے رسوم تھے، ان سب کو میں اپنے قدموں تلے روندتا ہوں اور ملیا میٹ کرتا ہوں اور تمہارے درمیان دو چیزیں ایک قرآن پاک اور دوسری اپنی سنت چھوڑے جا رہا ہوں، جب تک ان دونوں کو تھامے رہو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ تم سب ایک خدا کے بندے اور ایک باپ کے بیٹے ہو‘‘۔
آج بہت سے ایسے مسلمان ہیں، جو صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس میں کوئی اچھا کام انجام نہیں دیتے۔ مثلاً شادی بیاہ، منگنی، شکرانہ، تجارت، مکان یا دوکان کا آغاز نہیں کرتے۔ مشکوۃ شریف میں حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہ متعدی بیماری ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے‘‘۔ ایک اور حدیث شریف بخاری و مشکوۃ میں حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عدویٰ نہیں، یعنی مرض کا متعدی ہونا نہیں اور نہ بدفالی ہے اور نہ ہامہ ہے نہ صفر اور مجذوم سے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو‘‘۔ ’’لاعدویٰ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ایک بیماری دوسرے کو نہیں لگتی۔ زمانۂ جاہلیت میں لوگوں کا اعتقاد تھا کہ جو شخص بیمار کے ساتھ بیٹھتا ہے یا اُس کے ساتھ کھاتا پیتا ہے تو مریض کی بیماری اس کو بھی لگ جاتی ہے۔ ایسا ہی اس زمانہ کے ڈاکٹرس اور حکماء بھی کہا کرتے تھے کہ ’’بعض متعدی بیماریاں ہیں، مثلاً جذام، خارش، چیچک، آبلہ، گندہ دہنی اور امراض وبائیہ‘‘۔ مگر حکیموں کے حکیم سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جاہلانہ عقیدہ کو باطل قرار دیا اور واضح فرمایا کہ ’’بیماری کوئی بھی ہو، ایک سے دوسرے کو نہیں لگتی، بلکہ قادرِ مطلق نے جس طرح اس شخص کو بیمار کیا ہے، اسی طرح دوسرے کو بھی بیمار کردیتا ہے‘‘۔
ماہِ صفر المظفر کی جہاں بہت ساری خصوصیات ہیں، ان میں سے اس ماہ کو ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی حاصل ہے کہ تاریخ اسلام کی بہت سی جنگیں مسلمانوں نے اسی ماہ صفر میں لڑیں اور اسلامی لشکر کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے آگے بڑھ گیا، اسی لئے اس مہینہ کو ہم مسلمان ’’صفر المظفر‘‘ کہتے ہیں۔ رہا بیماری کو متعدی سمجھنے کا معاملہ تو ہمارا یہ عقیدہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر یقین اور توکل نہ رکھنے کا ثبوت دیتا ہے۔
ایک صحابی رسول حضور پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے: ’’یارسول اللہ! میرے اونٹوں کے گلے میں کہیں سے ایک خارش زدہ اونٹ داخل ہو گیا، جس کے سبب میرے تمام اونٹ خارش میں مبتلا ہو گئے‘‘۔ یہ سن کر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور سُرخ ہوگیا اور آپﷺ کے چہرۂ اقدس پر غصہ کے آثار نمایاں نظر آنے لگے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ ’’پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ کیا؟‘‘۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سوال کا ان صحابی کے پاس کوئی جواب نہ تھا، سوائے اس کے کہ ’’اس اونٹ کو خارش زدہ اللہ تعالیٰ نے کیا‘‘۔ لہذا وہ صحابی رسول خاموش کھڑے ہوگئے۔ اس کے بعد سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ، جو کچھ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کرتا ہے‘‘۔
بیماری کے متعدی ہونے کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے، لیکن ایسے بہت سے کمزور ایمان والے مسلمان ہیں کہ جن کو اپنے رب کریم پر توکل نہیں ہے، بلکہ ان کا یقین بلی، کوے اور دروازے کی زنجیر وغیرہ پر ہے۔ بالخصوص ان امور میں ہماری اسلامی مائیں اور بہنیں بہت ہی آگے بڑھی ہوئی ہیں۔ اگر وہ کسی کام سے باہر نکلیں اور راستے میں اُن کے سامنے سے بلی گزر گئی تو آفت آجاتی ہے۔ ایسے موقع پر ہماری ماؤں بہنوں کا کہنا ہے کہ ’’گھر واپس لوٹ جانا بہتر ہے، کیونکہ جس کام کے لئے نکلے تھے، اب وہ کام نہیں ہوگا‘‘۔
اسی طرح اگر گھر کی منڈیر پر بیٹھ کر کَوّا بولنے لگے تو یہ کہتے ہوئے اُسے اُڑا دیا جاتا ہے کہ ’’یہاں بیٹھ کر مہمان کو کیوں بلا رہا ہے؟ کسی اور جگہ جاکر بلاؤ‘‘۔ اسی طرح دو آدمیوں کے درمیان سے آگ لے کر گزرنا یا دروازے کی زنجیر ہلانے کو بھی انتہائی بُرا سمجھا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ’’یہ حرکتیں لڑائی جھگڑے کا باعث ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ یہ ساری باتیں دَورِ جہالت میں پائی جاتی تھیں، جن کے بارے میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’میں نے اس قسم کے باطل عقیدوں کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو بدعقیدگی سے بچائے اور ہمارے ایمان عقیدے کی حفاظت فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہٖ اجمعین۔