حافظ شیخ محمد افضل (عثمان آباد)
مؤمنانہ اخلاق کے متعلق بتلایا گیا ہے کہ اس میں صبر و شکر، عفو و درگزر، ایفائے عہد، گناہوں سے بچنا، شرم و حیا، نرمی، ایثار و قربانی، عاجزی و انکساری، یعنی یہ سب چیزیں مؤمنانہ اخلاق میں شامل ہیں۔ عفو و درگزر کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ’’یارسول اللہ! میں اپنے خادم کا قصور کتنی دفعہ معاف کروں؟‘‘۔ آپﷺ نے سائل کو کوئی جواب نہیں دیا بلکہ سکوت فرمایا۔ سائل نے پھر وہی سوال دہرایا، لیکن آپﷺ اس بار بھی خاموش رہے۔ جب سائل اپنا سوال تیسری بار عرض کیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ہر روز ستر (۷۰) دفعہ‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت کے دن ایک پکارنے والا پکارکر کہے گا کہ وہ لوگ کہاں ہیں، جو لوگوں کی خطائیں معاف کردیا کرتے تھے؟ وہ اپنے پروردگار کے حضور میں آئیں اور اپنا انعام لے جائیں‘‘۔ جن مسلمانوں میں یہ عادت پائی جاتی ہے، وہ یقیناً جنت کے حقدار ہوں گے۔
شرم و حیا کے بارے میں حضور اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ہر دین کے لئے ایک خلق ہوتا ہے جو ممتاز ہوتا ہے، ہمارے دین کا ممتاز خلق شرم و حیا ہے‘‘۔ نرمی کی اہمیت بتاتے ہوئے حضرت جریر رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ فخر کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جو آدمی نرمی کی صفت سے محروم کیا گیا، وہ سارے خیر سے محروم کیا گیا‘‘۔ (مسلم شریف)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا میں تم کو ایسے شخص کی خبر نہ دوں، جو دوزخ کے لئے حرام اور دوزخ کی آگ اس (شخص) پر حرام ہے۔ سنو! میں بتاتا ہوں دوزخ کی آگ اس شخص پر حرام ہے جس کا مزاج تیز نہ ہو، بلکہ نرم ہو۔ لوگوں سے قریب ہونے والا ہو اور نرم خو ہو‘‘۔
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص مؤمنانہ اخلاق جاننا چاہتا ہے تو اسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا جاننا ضروری ہے۔ چنانچہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے کہ ’’تمہارے لئے نبی کی زندگی بہترین نمونہ ہے‘‘۔ اس بات سے ہم سب واقف ہیں کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو روز اول ہی سے آپﷺ کو ستایا گیا، تکلیفیں دی گئیں، راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپﷺ پر کچرے ڈالے گئے، یہاں تک کہ جب آپﷺ نماز ادا فرماتے تو آپ کی پشت مبارک پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی جاتی۔ الغرض آپﷺ کو طرح طرح سے ستایا گیا، لیکن آپ نے کبھی اپنے دشمنوں کے حق میں بددعا نہیں کی، بلکہ ان کے سامنے اپنا اخلاق و کردار پیش کیا۔ یعنی آپﷺ نے اخلاق و کردار کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ آج تک دنیا کوئی مثال نہیں پیش کرسکی۔ پھر چشم فلک نے ایک دن وہ بھی دیکھا کہ مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا اور مکہ فتح ہو گیا۔ آپﷺ اگر چاہتے تو اپنے دشمنوں سے بدلہ لے لیتے اور اپنے ہر ایک دشمن کا خاتمہ کردیتے، لیکن اس موقع پر بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سخت دشمن کا نام لے کر یہ ارشاد فرمایا کہ ’’جو شخص ابو سفیان کے گھر میں ہے اسے امان ہے اور جو کعبہ کے اندر ہے اس کو قتل نہ کیا جائے‘‘۔ الغرض اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانی دشمنوں کو معاف فرمادیا۔
بزرگان دین فرماتے ہیں کہ خوش خلق آدمی اپنے آپ کو ہیچ جانتا ہے اور دوسروں کو افضل و برزگ سمجھتا ہے۔ یہ ایک اچھے انسان کی عاجزی اور مؤمنانہ اخلاق ہے۔ بانی جامعہ نظامیہ شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ اپنی کتاب انوار احمدی میں رقمطراز ہیں کہ ’’جس کے اندر عجز و انکساری ہو، وہ یقیناً اخلاق والا ہے اور جس کے اندر عجز و انکساری نہ ہو، وہ اخلاق والا ہرگز نہیں ہوسکتا‘‘۔
بداخلاقی اچھے عمل کو اس طرح خراب کرتی ہے، جیسے ایلوا شہد کو خراب کردیتا ہے۔ بداخلاقی میں بے برکتی ہے۔ بداخلاقی ایک کھلی خطا ہے۔ بداخلاقی انسان کی بدبختی ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)