لڑکے ‘ لڑکیوں کو جذبہ ایثار سے شادی شدہ زندگی گذارنے کی تعلیم ضروری

اسراف سے بچ کر نادار لڑکیوں کی شادی کے اسباب فراہم کرنے کی تلقین ۔ 73 ویں دو بدو پروگرام سے جناب زاہد علی خاں و دوسروں کا خطاب

حیدرآباد 26 فبروری ( سیاست نیوز) گھوڑے جوڑے کی لعنت اور شادی میںبیجارسومات‘ مہنگے شادی خانہ اور لاکھوں روپیوں کے خرچ سے پکوان کا اہتمام مسلم معاشرے کا ایک حسا س مسئلہ بنا ہوا ہے ۔رشتہ ازدواج کیلئے لوگ سیرت کے بجائے عارضی خوبصورتی شان وشوکت کو ترجیح دے رہے ہیں ۔انسانیت ‘ ادب واحترام کی تمام حدیں فراموش کردی گئی ہیں’ شادیوں میںبیجا اسراف سے اجتناب کرکے غریب اورنادار مسلم لڑکیوں کی شادی کے اسباب بنانے کی سوچ و فکر معاشرے کی سب سے بڑی ضرورت بنی ہوئے ہیں۔جہاں ہم لاکھو ں روپئے کے اصراف سے مہنگے شادی خانوں کا انتخاب کرتے ہیںاسی طرح ہمیں غریب او رنادار لڑکیوں کی شادی کی فکر کی ضرورت ہے ۔شادی سے قبل اور شادی کے بعد کے حالات سے مقابلہ کرنے اور کامیاب زندگی گذارنے کی تربیت آج نوجوان نسل کو دینے کی ضرورت ہے ۔ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خان نے ادارۂ سیاست او رمائناریٹی ڈیولپمنٹ فورم کے زیر اہتمام ایس اے ایمپرئیل گارڈن ٹولی چوکی میں منعقدہ 73 ویں دوبدو پروگرام سے صدارتی خطاب کے دوران ان خیالا ت کا اظہار کیا ۔ جناب زاہد علی خان نے کہاکہ رشتہ ازدواج کی کامیابی کا انحصار جذبہ ایثار وقربانی پر ہے مگر نوجوان نسل جذبہ ایثار وقربانی سے بے بہرہ ہوتی جارہی ہے ۔ جناب زاہدعلی خان نے کہاکہ والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو خواہ وہ لڑکا ہو لڑکی مشکل حالات میںسمجھوتے کے ذریعہ زندگی گذارنے کی تربیت دیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں اصراف ‘ بیجا رسومات ‘ کھانے اور شادی خانوں پر لاکھوں روپئے کے فضول خرچ کے خاتمے کی ضرورت ہے اور بیوی اور شوہر کے درمیان سمجھوتے سے جذبہ ایثار قربانی کی تربیت وقت کی اہم ضرورت ہے ۔انہوں نے کہاکہ ساس او ربہو کا رشتہ ماں و ربیٹی کی طرح ہونا چاہئے جبکہ بہو پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ساس کو ماں کی طرح سمجھتے ہوئے ساس کی خدمت کو ثواب کا ذریعہ سمجھے۔ جناب زاہد علی خان نے کہاکہ جس گھر میںسرپرستی کیلئے ساس او رخسر نہیںرہتے گھروں میں پیدا ہونی والی الجھنوں کا حل مشکل ہے ۔ آج شادیاں بڑی آسانی سے ٹوٹتی جارہی ہیں جس کی اصل وجہ بیوی وشوہر کے درمیان جذبہ ایثاروقربانی کی کمی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اس کیلئے شادی سے قبل والدین پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ خواہ لڑکا ہو یا پھر لڑکی دونوں کو ازدواجی رشتوں کو نبھانے سمجھوتے کے نظریہ سے واقف کروائیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ مسئلہ صرف حیدرآباد یا تلنگانہ کا نہیں سارے ملک کا ہے اور جہا ں مسلمانوں کی اکثریت پائی جاتی ہے وہاں ایسے معاملات عام ہوگئے ہیں۔ ہمیں انا پرستی آپسی جھگڑوں کو ختم کرکے ملت اسلامیہ کو درپیش حساس مسلئے کی یکسوئی کے اقداما ت اٹھانے کی ضرورت ہے ۔جناب زاہد علی خان نے کہاکہ میں نے فیصلہ کیا کہ میںاصراف والی شادیوں میںشرکت سے اجتناب کرونگا اور مسلم معاشرے کا ہروہ شخص اس طرح کا فیصلہ کرلے تو یقینا ملت اسلامیہ کے اس سلگتے مسلئے کو آسانی کے ساتھ حل کرلیاجاسکے گا۔جناب زاہد علی خان نے ریاست جموں وکشمیر کی مثال پیش کی اور کہاکہ کسی بھی حالات میں صحیح جموں کشمیر میںشادیوں میںبیجا اصراف پر روک تھام کیلئے سرکاری سطح پر اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ شادی کی تقریب میں مہمانوں کی شرکت کیلئے تعداد کی حد مقرر کردی گئی ہے ( باقی سلسلہ صفحہ 6 پر )