قیام امن کے سب سے بڑے داعی

مولانا محبوب عالم اشرفی

دین اسلام ی دین حق و صداقت اور سراپا امن و عافیت ہے، جس کے انوار سے سارا عالم روشن و منور ہو گیا۔ اللہ تعالی کے تمام رسولوں نے ساری دنیا کو امن و شانتی کا سبق پڑھایا اور تمام انبیاء و مرسلین کے سردار اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کے تمام بندوں کے لئے بلاتفریق مذہب و ملت امن و سلامتی کا پیغام دیا اور دنیا سے فتنہ و فساد، انتشار و افتراق کو ختم کرنے اور باہم اخوت و محبت کے جذبات کو فروغ دینے پر زور دیا۔ یہ حقیقت ہے کہ قتل و غارتگری کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اقوام عالم کو اتحاد و یگانگت کا درس دیا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: ’’جو لوگ اللہ تعالی سے کئے ہوئے اپنے وعدے کو توڑتے ہیں اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انھیں کاٹتے ہیں اور زمین پر فساد کرتے ہیں، ایسے لوگوں پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔ (سورۂ رعد۔۵۲)
باہم تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’بے شک مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی کی طرح ہیں، پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرادو اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘ (سورۂ حجرات) ایک جگہ فرمایا: ’’نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو، گناہ اور ظلم کے کام پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو‘‘۔ (سورۂ مائدہ۔۲تا۵)
اسلام میں امن و سکون کے قیام کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر حد سے گزرنے والے اور زمین پر فساد برپا کرنے والوں کے تعلق سے وعید فرمائی۔ جیسا کہ سورۂ یونس میں ہے کہ ’’زمین میں فساد نہ کرنا، یاد رکھو! اللہ تعالی فسادیوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا کہ ’’حد سے گزرنے والے لوگ جو زمین میں فساد کرتے ہیں اور اصلاح کا کام نہیں کرتے، ان کی بات نہ مانو‘‘۔ (سورۂ قصص۔۷۷)
پیغمبر اسلام، نبی رحمت، آبروئے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نوع انسان کو امن و امان، یکجہتی و اتحاد کا ایسا درس دیا، جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ فتح مکہ کے موقع پر اسلامی عساکر کے سالار کو ہدایت جاری فرمائی کہ جنگ میں بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور مذہبی رہنماؤں کو نہ مارا پیٹا جائے اور نہ ان پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ اگر آپﷺ چاہتے تو فتح مکہ کے دن اپنے اوپر کئے گئے ایک ایک ظلم کا بدلہ لے سکتے تھے اور ہر ایک ظلم و زیادتی کا جواب مکمل طورپر انتقام کے ذریعہ دیا جاسکتا تھا، مگر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا، یہاں تک کہ اپنے خون کے پیاسوں کو بھی معافی عطا فرمادی اور انتقامی جذبات کے تصور کو چکنا چور کردیا۔
دورِ حاضر کی حکومتیں اگر قتل و غارتگری، جرائم، لوٹ مار، غنڈہ گردی، درندگی اور دہشت پسندی کو ختم کرنا چاہتی ہیں تو انھیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام امن کے فرامین سے ہدایت حاصل کرنا چاہئے، کیونکہ اسلامی تعلیمات کو اپنائے بغیر جرائم میں کمی کا تصور محال ہے اور نہ ہی استحصالی ذہن و فکر کے افراد سے ظلم و بربریت ختم کیا جاسکتا ہے۔ حقیقی معنوں میں اگر آپ دنیا میں امن و سکون فراہم کرنا چاہتے ہیں اور دنیائے انسانیت کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے متفکر ہیں تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کرم سے وابستہ ہوکر امن کے خواب کو پورا کرسکتے ہیں۔
حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا غیر جانبدارانہ طورپر جن لوگوں نے مطالعہ کیا، وہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ آپﷺ سے بڑا امن کا داعی اس روئے زمین پر پیدا نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ظالموں اور دشمنوں کے پتھر کے جواب میں مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں دیں، اذیتیں اور ظلم و زیادتی برداشت کیں اور دشمنوں پر غلبہ پانے کے باوجود آزادی کا پروانہ عطا کیا۔ لہذا دنیا کو ماننا پڑے گا کہ قیام امن کے سب سے بڑے داعی مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
اگر آپ تاریخ کا جائزہ لیں تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ بعض یوروپی ممالک اور افریقہ و ایشیا میں جب اسلامی حکومتیں قائم ہوئیں تو سب سے پہلے مسلم حکمرانوں نے سماج میں امن و امان قائم کیا اور عدل و انصاف پر اپنی توجہ مرکوز کی تو انھیں کامیابی و کامرانی نصیب ہوئی، جب کہ امن عدل و انصاف کے بغیر ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ پیغمر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عدل و انصاف کے قیام پر زور دیا اور اس طرح حاکمان وقت کو بھی عام لوگوں کی طرح عدالتوں میں حاضر ہونا پڑا۔ اگر ہم دنیا میں امن و امان کی فضاء چاہتے ہیں تو پیغمر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی آفاقی تعلیمات کو اپنائیں، کیونکہ آپﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے بغیر دنیا میں امن و سلامتی کا قیام ممکن نہیں ہے۔ چنانچہ طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالی وجہہ کو یمن روانہ کرتے ہوئے یہ نصیحت فرمائی تھی کہ ’’تم یمن پہنچ جاؤ تو اس وقت تک دشمنوں پر حملہ نہ کرنا، جب تک کہ وہ تم پر حملہ آور نہ ہوں‘‘۔ ایسی بے شمار روایات ملتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو منع فرمایا کہ ’’ہرگز تم میں سے کوئی ان پر حملہ کرنے میں پہل نہ کرے، ان کے ساتھ بدعہدی نہ کرے اور دشمنوں کے قاصد کو قتل نہ کرے‘‘۔