مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ جب آسمان سے بارش برساتے ہیں تو مردہ زمینیں زندہ ہوتی ہیں اور ان میں جان پڑتی ہے، پھل پھلار سبزیاں و دانے زمین سے اُگتے ہیں اور انسانوں کی مادی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں ، بارش اگر نہ برسے تو قحط پڑ جاتا ہے، انسان تو انسان جانور بھی بھوک و پیاس سے بے چین ہو کر بلبلاتے ہیں،بسا اوقات ان یں سے بعض ہلاکت کا شکار ہو جاتے ہیں ایسے میں ہر کوئی اللہ کی طرف رجوع ہوتا ہے اور اللہ سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے،انسان کے عاجزی و بے بسی کا پیکر ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ بارش کا کوئی متبادل اپنی کد و کاش سے پیدا نہیں کر سکتا ، سائنسی ترقیات بھی یہاں آکر گھٹنے ٹیک دیتی ہیں، بارش کا برسانا ان کے بس میں بھی نہیں ، یہ بے بسی و عاجزی انسان کو حق کی معرفت تک پہنچانے کے لئے کافی ہے ، جیسے ا س مادی دنیا کیلئے بارش کا برسنا ضروری ہے اسی طرح روحانی زندگی میں انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کی اس سے کہیں بڑھ کر ضرورت ہے ، روحانی زندگی کی زمین قلب و روح ہیں، انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات سے جن کو زندگی ملتی ہیں اور ان میں روحانی جان پڑتی ہے، اگر انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کو زندگی سے نکال دیا جائے تو قلب و روح کی زمین بنجر و سوکھی ہو جاتی ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہر زمانے و قوم میں انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا ہے تا کہ قلب و روح کی زندگی میں تازگی و سرسبزی رہے ۔ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں آپﷺ کی تعلیمات اور آپﷺ کا پیغام ابدی ہے روحانی نظام زندگی میں ، قیامت تک یہی تعلیمات دلوں کو زندہ رکھیں گی اور روح کی زندگی و حیات کا سامان کریں گی، اسی لئے اللہ کو اپنا خالق و مالک و معبود تسلیم کر کے اور سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی آخر الزماں مان کر اور آپﷺ کے لائے ہوئے پیغام کو قبول کر کے ہی قلب و روح کو زندہ رکھا جا سکتا ہے، اسی لئے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ائے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول جب تم کو اس چیز کی طرف بلائیں جو تم کو زندگی بخشتی ہے تو فوری لبیک کہہ کر اس کو قبول کر لو (الانفال ؍۲۴)۔
الغرض نبیٔ رحمت ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات ہی مردہ دلوں کو زندہ کر سکتی ہیں ، جاں بلب روحوں کو زندگی وتازگی دے سکتی ہیں، آپﷺ کی پاکیزہ زندگی اور تعلیمات ہی انسانی زندگی کے لئے سر چشمۂ حیات ہے، سنت کا نور ہی بے نور روحوں کو نور دے سکتا ہے اور تشنہ دلوں کی پیاس بجھا سکتا ہے۔ انسانی زندگی کی کامیابی کا اس وقت تک کوئی تصور ہی نہیں کیا جا سکتاجب تک کہ اس کی زندگی کے سارے گوشے نور نبوت کی روشنی سے مستنیر نہ ہوں، آپﷺ کی حیات طیبہ کی روشنی ہماری روحانی حیات سرمدی کے لئے ضروری ہے ، مادی دنیا کی زندگی جس طرح مادی اسباب پر رکھی گئی ہے اسی طرح قلب و روح کی زندگی روحانی اسباب سے مربوط رکھی گئی ہے ، وہ روحانی اسباب کا سر چشمہ۔ الٰہی تعلیمات و نبوی ہدایات ہیں، ان پر عمل کرنے سے ہی دلوں کو زندگی ملتی ہے اور ان سے رو گردانی کی وجہ دلوں کی دنیا پر مردگی چھا جاتی ہے ۔ انسان کو اس دنیا میں امتحان کی غرض سے اختیار کی آزادی دی گئی ہے، ارشاد ربانی ہے: جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کی راہ اختیار کرے۔ ظاہر ہے اس آزادی میں انسان کے لئے بڑا امتحان ہے، وہ دنیا کا بہت بڑا دانشور کہلائے یا اپنی طاقت وقوت یا اپنی ذہنی اعلیٰ صلاحیت کاکوئی تمغۂ افتخار حاصل کر لے لیکن دل کی دنیا میں الٰہی تعلیمات و نبوی ہدایات کی حکمرانی کے بجائے نفس و خواہش کو حکمران بنا لے تو اس کی دانشمندی اور اس کی طاقت و قوت و ذہنی اعلیٰ صلاحیت اس کے کسی کام کی نہیں، اس کی روحانی زندگی کی کشتی خواہشات نفس کے سمندر میں غرق آب ہو کر موت سے ہمکنار ہو جائے گی اس لئے دلوں پراُسی کو حکمران بنانا چاہئے جو اس کو زندگی و تابندگی بخش سکتے ہیں ، یقیناً یہی پاکیزہ اسلامی تعلیمات انسان کے قلب کو نور عرفان سے درخشاں کر سکتی ہیں۔ حضرت ثنا ء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے اس آیت پاک کے ضمن میں بڑے پتے کی بات لکھی ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری اور سنتوں پر عمل آوری سے دل زندہ ہوتے ہیں اور اس سے انحراف دلوں کو مردہ کرتا ہے ۔
انسان مادی دنیا میں ملنے والے مادی اسباب پر فخر کرتاہے اور اسی میں مگن رہ کر روحانی اسباب اختیار کر کے روح کی زندگی کا سامان کرنے سے غفلت کا شکار ہوجاتا ہے جبکہ مادی اسباب فانی ہیں اور موت کے ساتھ ان اسباب سے انسان کا رشتہ خود بخود ٹوٹ جاتا ہے لیکن روحانی اسباب زندگی ہمیشہ انسان کے ساتھ رہتے ہیں، نہ دنیا میں ان کا رشتہ انسان سے منقطع ہوتا ہے نہ آخرت کی زندگی میں، چونکہ دنیا کی زندگی میںبھی یہی راحت و سکون بخشتے ہیں اور آسودگی پہنچاتے ہیں جبکہ آخرت کی زندگی میں تو یہی روحانی اسباب زندگی ہی کام آتے ہیں اور نفع پہنچاتے ہیں، ارشاد باری ہے : اس دن نہ تو مال نفع دے گا نہ ہی اولاد، مگرنفع پہنچانے والی چیز قلب سلیم ہے (الشعراء؍۸۸) اور اللہ کے حضور اسی قلب سلیم کی قدر وقیمت ہے اور ایسے ہی قلب کا بدلہ جنت ہے۔ جنت میں انہیں پاکیزہ روحوں کو بسایا جائے گا جنہوں نے دنیا میں ہدایات ربانی کی پابندی کرتے ہوئے دلوں کو پاکیزہ بنایا ہوگا، اور دل کی دنیا کو تجلیات ربانی سے روشن کیا ہوگا ، ارشاد باری ہے: جو رحمن سے غائبانہ خوف رکھتا ہے،اس کی طرف رجوع رہنے والا دل لیکر حاضر ہوا ہے اس سے کہا جائیگا کہ جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جا جہاں ہمیشہ رہنا ہے (ق؍۳۴،۳۳) ،آخرت کی زندگی میں اللہ سبحانہ کو جو تحفہ سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے وہ قلب سلیم کا ہے، اورقلب اس وقت تک سلیم نہیں بن سکتا جب تک کہ سرمایۂ وحی کو اس کی حقیقی ضرورت نہ بنا دیا جائے، اور قلب سلیم کی نعمت لے کر اللہ کے بارگاہ میں پہنچنے والا ہی بارگاہ الٰہی میں اپنے پاکیزہ قلب سلیم کا نذرانہ پیش کر سکتا ہے۔
حریمِ قدس میں ایمان کامل لے کے آیا ہوں
مرادیں لے کے سب آئے ہیں میں دل لے کے آیا ہوں
گدائے عشق ہوں، نذرانۂ دل لے کے آیا ہوں
یہی اِک چیز تھی لانے کے قابل لے کے آیا ہوں
صاحبان قلب سلیم ہی صاحبان بصیرت کہلاتے ہیں، ظاہری بینائی رکھتے ہوں تب بھی ، نہ رکھتے ہوں تب بھی وہ دل بینا کے مالک ہوتے ہیں، دل اگر بینا نہ ہو تو ظاہری بینائی کس کام کی، اس لئے قلب و روح کی حیات کا سامان کرتے ہوئے بصیرت پیدا کرنے اور دل بینا کے لئے بار گاہ الٰہی سے رجوع ہوکر دعا کا اہتمام بھی کریں۔
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور ، دل کا نور نہیں