قربانی خلوصِ نیت کے ساتھ کی جائے

سید زبیر ہاشمی، مدرس جامعہ نظامیہ

ذوالحجۃ الحرام کا مہینہ بڑا ہی عظمت، رحمت، فضیلت اور انتہائی سعادت والا ہے، اور یہ اسلامی اعتبار سے آخری مہینہ ہے، یہ قربانی کا مہینہ ہے۔ جس میں ابوالأنبیاء حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اﷲعلیہ الصلوۃ والسلام کے فرزند عزیز حضرت سیدنا اسمعیل ذبیح اﷲ علیہ الصلوۃ والسلام، مولائے ذوالجلال کی رضا کی خاطر اپنی جان ِعزیز کو قربان کئے۔
جیسا کہ اﷲ سبحانہٗ وتعالیٰ قرآن مجید کے سورئہ صافات میں حضرت سیدنا اسمعیل ذبیح اﷲ علیہ الصلوۃ والسلام کی قربانی کے متعلق بڑی ہی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے ملاحظہ ہو: ’’جب ابوالأنبیاء حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ علیہ الصلوۃ والسلام خواب میں یہ دیکھے کہ وہ اپنے لاڈلے اور چہیتے فرزند حضرت سیدنا اسمعیل ذبیح اﷲ علیہ الصلوۃ والسلام کو ذبح کررہے ہیں۔ تو آپ {حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ علیہ الصلوۃ والسلام} اپنے بیٹے سے فرماتے ہیں کہ اے بیٹے ! میں نے اس طرح خواب میں دیکھاہے، اب تمہاری کیا رائے کیا ہے؟ تو اس جواب پر پیارے بیٹے فرماتے ہیں ائے اباجان! آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا اُس پر عمل کیجئے، انشاء اﷲ تعالیٰ آپ مجھے صابرین میں سے پائیں گے۔ ہوا یہی کہ جب ذبح کا وقت آیا تو سارا عالَم بشمول آسمان،ملائکہ، زمین،انسان، حجر، شجروغیرہ سب حیران و ششدر ہوگئے کہ ایک باپ اپنی چہیتے اور لاڈلے فرزند کو اپنے ہاتھ سے ہی ذبح کررہے ہیں آخر یہ کیا ماجرا ہے، آخر خدا کی محبت اتنی کیسی ان کے اندر جاگزیں ہے۔ مگر یہی خداکے برگزیدہ بندوں کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ خدا کی رضا کی خاطر اپنی تو اپنی، اپنی اولاد کی بھی جان قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں، جس کی ایک اعلیٰ مثال حضرت خلیل اﷲ علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کے فرزند حضرت ذبیح اﷲ علیہ الصلوۃ والسلام کی ہے، الغرض جب ذبح کا وقت قریب آیا تو جنتی دنبہ بحکم ِخداوندی پیش کیا گیا اور یہ نداء آئی کہ اے ابراہیم {علیہ الصلوۃ والسلام} آپ نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے ہم اپنے بندوں کو ایسے ہی اچھا بدلہ دیتے ہیں‘‘۔
مذکورہ واقعہ سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ اگر کوئی انسان کامیابی اور سرفرازی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُسے بھی دنیا کے مصائب اور آلام پر صبر و استقامت کے ساتھ رہنا پڑیگا، اگر اس طرح کے جذبہ کے ساتھ زندگی گزاریں گے تو یقین کرلیجئے کہ ایک نہ ایک دن ضرور مژدئہ کامیابی سنایا جائیگا۔ چنانچہ ہم حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ علیہ الصلوۃ والسلام کی ملت ہیں اور انکے دین پر چلنے والے ہیں جو کہ دینِ حنیف ہے۔ ہم ملت ِابراہیمی ہیں، اسی پر ہمیں قائم رہنا ہے اور اسی پر ہمیں مرنا بھی ہے۔
ابوالأنبیاء حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ علیہ الصلوۃ والسلام کواگر ہم اپنا سچا نبی مانتے ہیں تو لازم ہے کہ جس طرح سے آقائے دوجہاں حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سنتِ ابراہیمی علیہ الصلوۃ والسلام اختیار کئے، یعنی راہِ خدا میں اپنی طرف سے جانور کو ذبح کئے ہیں اسی طرح ہم ملتِ ابراہیمیعلیہ الصلوۃ والسلام اور امتِ محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم ہونے کے سبب راہِ خدا میں ہرصاحب ِنصاب شخص قربانی دے۔ {ازہرِ ہند جامعہ نظامیہ کے فتوے کے مطابق اگر کسی کے پاس ۴۲۵ گرام اور ۲۸۵ ملی گرام چاندی یا اتنی مقدار میں مال، روپیہ جمع ہوجائے تو وہ شخص صاحبِ نصاب کہلائیگا اُس پر قربانی واجب ہے۔ زکوۃ کے لئے سال کا گزرنا شرط ہے مگر قربانی کے لئے سال کا گزرنا نہیں ہے بلکہ ایامِ قربانی یعنی ۱۰ ذی الحجہ کی فجر سے لے کر ۱۲ ذی الحجہ کی عصر تک اِس نصابِِ مذکور کو جوکوئی پہنچ چکا، تو اُس کو قربانی دینا واجب ہے}۔
غور طلب عمل: عید الاضحی کے عظیم موقع پرہر صاحب ِنصاب شخص پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قربانی کا جانور ذبح کرے تو کسی قسم کی ریاء اور مقابلہ کے لئے نہ کرے، جیسا کہ دورِ حاضر کے مسلم معاشرے میں یہ چیز نظر آرہی ہے کہ فربہ جانور کی خریدی میں اخلاصِ نیت و صدق دِل کے بجائے دکھاوا،ریاکاری، نام و نمود، دوسروں پر اظہار برتری کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ آپس میں یہ لوگ اپنے جانور کا دوسروں کے جانور سے مقابلہ آرائی کر رہے ہیں اور دوسروں کے جانور کو کمتر اور اپنے جانور کو اعلیٰ سمجھ کر فخر و ناز کر رہے ہیں۔ اس قسم کے جذبات اسلامی روح کے منافی ہے۔ مسلمان کا ہر عمل اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی کے لئے ہونا چاہئے۔ جانور کی قربانی بھی ایک اہم عبادت ہے، جوکہ سال میں صرف اور صرف ایک مرتبہ ہی موقع ملتا ہے۔ ایسے عظیم موقع پر قربانی میں بے حساب خلوص نیت ہونی چاہئے اور یہی نیت کا اخلاص، قلب کی پاکیزگی، رضائے الہی کی جستجو اور تقویٰ کی کیفیت قربانی کا مقصود و مطلوب ہے۔
اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ تمام صاحب ِنصاب اشخاص کو خلوص ِنیت سے جانور ذبح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
zubairhashmi7@gmail.com