اﷲ ہی ہے جس نے بنائی ہے تمہارے لئے رات تاکہ تم آرام کرو اس میں اور (بنایا ہے ) دن کو روشن بیشک اﷲ تعالیٰ بڑا فضل و کرم والا ہے لوگوں پر لیکن بہت سے لوگ ( اس کی نعمتوں کا ) شکر ادا نہیں کرتے ۔ وہ ہے اﷲ تمہارا (رب) پیدا کرنے والا ہرچیز کا کوئی عبادت کے لائق نہیں بجز اس کے ۔پس کیسے راہِ حق سے تم روگردانی کرتے ہو۔ (سورۃ المؤمن ۔۶۱ ۔ ۶۲)
یہاں توحید باری کی ایسی دلیل پیش کی جارہی ہے جسے سمجھنے کے لئے کسی بڑی عقل و فراست یا علم و فضل کی ضرورت نہیں بلکہ ایک اَن پڑھ بھی اسے بخوبی سمجھ سکتا ہے اور اس سے ہر لحظہ استفادہ کررہا ہے ۔ یہ رات اور دن کاتسلسل ہزاروں لاکھوں برس سے قائم ہے اور بڑی باقاعدگی سے آج سے لاکھ سال پہلے اس تاریخ کو جس اُفق سے سُورج طلوع ہُوااور جس اُفق پر غروب ہوا اور جتنے بجکر جتنے منٹ پر ہُوا اس میں سرِمُو تفاوت نہیں۔ اگر کوئی اور بھی کارخانۂ قدرت میں شریک ہوتا تو کبھی تو اس کا حکم چلتا ۔ معلوم ہوا کہ ایک خدا کے حکم کے مطابق تو سُورج ۵ بجکر ۲۰ منٹ پر طلوع اور ۶ بجکر ۴۰ منٹ پر غروب ہونا تھا لیکن آج دوسرے خدا کا فرمان ہے کہ دس منٹ پہلے طلوع ہو اور دس منٹ دیر سے غروب ہو ۔ جب ایسا کبھی نہیں ہوا تو معلوم ہوا خدا وہی ہے جس کا حکم ہمیشہ سے جاری اور نافذالعمل ہے ۔ یہ اﷲ تعالیٰ جس کی یہ شانیں اور قدرتیں ہیں جس کی وحدانیت اور کبریائی پر گلشنِ ہستی کی ہرکلی شہادت دے رہی ہے۔ یہی تمہارا پروردگار ہے ۔ ہرچیز کو خلعتِ وجود سے اسی نے نوازا ہے ۔ اس کے بغیر کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ پس تمہیں یہ جرأت کیسے ہورہی ہے کہ تم اس کی عبادت سے رُوگردانی کرکے اِدھر اُدھر باطل معبودوں کے آستانوں پر مارے مارے پھرو ۔ علامّہ جوہریؔ صحاح میں لفظ افک کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کسی چیز سے روگردانی کرنا ، منہ پھیرلینا لیکن علامہ راغب اصفہانی کے مطابق ایسی چیز سے مُنہ پھیرلینا جس سے وابستہ رہنا اس پر لازم تھا ۔