سید محمد افتخار مشرف
اللہ تعالیٰ نے مال کو انسانوں کے لئے وجہ قیام قرار دیا ہے۔ انسان کی جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنے اور جسمانی زندگی کو بقا دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مال پیدا کیا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بے وقوفوں کو اپنے وہ مال نہ دو، جنھیں اللہ رب العزت نے تمہارے قیام کا ذریعہ بنایا ہے‘‘۔ (سورۃ النساء۔۵)
اسی وجہ سے مال کی محبت اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھ دی۔ نہ صرف ضروریات زندگی کی حد تک، بلکہ آسائش اور زیب و زینت کی چیزوں کی محبت انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ اس فطرت انسانی کو قرآن حکیم نے یوں بیان کیا ہے: ’’لوگوں کے لئے ان کی خواہشات کی محبت خوشنما کردی گئی ہے، یعنی عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر، عمدہ گھوڑے، چوپائے اور کھیتیاں یہ سب دنیا کی زندگی کا سامان ہے‘‘ (سورۃ الانفال۔۶)
مال اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، لیکن یہ عزت کا معیار نہیں، بلکہ مال کی محبت انسان کو ذلت کی اَتھاہ گہرائیوں میں گرادیتی ہے۔ اسلام میں ملکیت کے تصور کو قرآنی تصریحات کی روشنی میں دیکھا جائے تو سب سے اہم بات یہ سامنے آتی ہے کہ کائنات کی کوئی چیز بھی اصلاً انسان کی ملکیت نہیں ہے۔ ایک حقیر ذرے سے لے کر کائنات کی بڑی سی بڑی چیز تک کسی بھی شے پر انسان کو مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہیں، حتی کہ انسان اپنی جان، زندگی اور اعضائے بدن کا خود مالک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی شخص کو یہ استحقاق حاصل نہیں کہ اپنی جان تلف کردے، کسی کو پیشگی اپنا خون معاف کردے، بلکہ اگر کسی شخص کی زمین میں زائد از ضرورت گندم پیدا ہوتا ہے تو اسے یہ حق نہیں کہ اپنا گندم جلا ڈالے، سمندر میں پھینک دے یا کسی اور طریقے سے ضائع کردے، کیونکہ قرآن مجید کی رو سے انسان کی جان، اعضاء و جوارح، قوتیں و صلاحیتیں، مادی اسباب اور وسائل، سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور انسان کے پاس بطور امانت ہے۔
انسان کو مال کے بارے میں جو تصرف اور اختیار حاصل ہے، ان کے لئے قرآن حکیم نے وراثت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ’’زمین اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے‘‘۔
(سورۃ الاعراف۔۱۲۸)
وراثت میں جو سب سے بڑی حقیقت پوشیدہ ہے، وہ یہ ہے کہ وراثت کا لفظ استعمال کرکے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ وسائل تم سے پہلے کسی اور کے تصرف میں تھے، کیونکہ وراثت انسان کو اپنے آبا و اجداد سے ملتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تمہارے بعد کسی اور کے تصرف میں ہوگی۔ تھوڑے دنوں کے لئے اس کو تمھیں حق تصرف دیا گیا ہے، تاکہ تمہاری آزمائش ہو جائے کہ تم اسے کس طرح استعمال کرتے ہو۔
اسلامی قانون ملکیت میں فرد اور اجتماع دونوں کی بھلائی، اصلاح اور خیر خواہی پیش نظر رکھی گئی ہے۔ فرد اور اجتماع کے حقوق میں اس قدر توازن ہے کہ فرد کو مکمل تحفظ دیا گیا ہے، بشرطیکہ اس کے حق ملکیت سے معاشرے کو نقصان نہ پہنچے اور معاشرے کو مکمل اختیارات دیئے گئے ہیں، بشرطیکہ ان کی وجہ سے فرد کے مفادات متاثر نہ ہوں۔ اسلام نے جامع الفاظ میں یہ اصول بیان کیا ہے کہ ’’اسلام میں نہ اپنا نقصان نہ کسی دوسرے کا‘‘۔ (مسند احمد، عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ)
انسانی زندگی کی بقاء کے لئے مال کی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید نے تحفظ ملکیت کے قوانین وضع کئے اور ایسے حالات پیدا کرنے کی طرف انسانی معاشرے کی رہنمائی کی، جس میں کوئی ایسا طبقہ پیدا نہ ہو، جو زبردستی دوسروں کے اسباب معاش اور وسائل رزق پر قبضہ کرکے انھیں بنیادی ضرورتوں یا ضروری آسائشوں سے محروم کردے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے: ’’ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق نہ کھاؤ اور اسے حاکموں تک نہ پہنچاؤ، تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ گناہ کے ساتھ جان بوجھ کر کھاجاؤ‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔۱۸۸)
قرآن مجید نے ربوا (سود) کو حرام قرار دیا ہے، کیونکہ اس میں دوسرے کی ضرورت یا مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی رضامندی کے بغیر اس سے مال حاصل کیا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے کی تشکیل اور اس طرح کے حالات پیدا کرنا کہ لوگ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے سود پر قرض لینے پر مجبور ہو جائیں، اسلامی نظام سے بغاوت ہے، جس کی سنگین سزا قرآن پاک میں بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح اہل کتاب کے علماء و مشائخ کو دوسروں کے مال ناجائز طریقے سے کھانے کی پاداش میں دنیوی اور اخروی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
کسی دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے کھانے کا ایک طریقہ چوری بھی ہے۔ چوری کرنے کی سزا بتاتے ہوئے قرآن حکیم نے کہا کہ ’’چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورتیں، جو بھی ہو ان کے ہاتھ کاٹ دو، ان کے عمل کی عبرتناک سزا ہے اللہ کی طرف سے‘‘۔ (سورۃ المائدہ۔ ۳۸)
ان احکام سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مال و ملکیت کے سلسلے میں لاحق ہونے والے ضرر کے ازالہ کے لئے کس قدر جامع قانون سازی کی گئی ہے۔
کریم اللہ شاہ فاتحؔ
حضرت سیّدی مچھلی والے شاہ
حضرت کمال اللہ شاہ صاحب قبلہ ؒ جو اپنے وقت کے باکمال اور جید بزرگ گذرے ہیں ۔ آپ کا اسم گرامی سیّدکمال اللہ تھا لیکن سیّدی مچھلی والے شاہ کے نام سے مشہور ہیں۔سکندرآباد میں آپ نے ذریعہ معاش کے لئے دُکان خشک مچھلی اور غلہ وکرانہ وغیرہ کھول رکھی تھی۔ آپ کو حضرت سید سلطان محمود اللہ شاہ حسینی (متوفی ۱۳۱۱ھ) کی معیت حاصل ہوئی، پھر بیعت سے سرفراز کیا گیا، اس کے بعد کاچیگوڑہ حیدرآباد میں منتقل ہوگئے اور ’’سرائے الہٰی چمن‘‘ کے نام سے ایک خانقاہ بنوائی اور وہاں سے آپ کافیضان ظاہری وباطنی پھیلنا شروع ہوگیا۔ بڑے بڑے علماء باعمل صوفیا اور سرکاری خطاب یافتہ اشخاص آپ کے آستانہ کمال پر دست بستہ حاضر رہا کرتے۔ توحید وجودی میں حضرت کارنگ عین شریعت کے مطابق خاص تھا۔ دست کرم ہمیشہ وہر وقت کھلا ہی رہا کسی کو دعا سے سرفراز فرمایا تو کسی کو عطا سے نوازا ٗ حتیٰ کہ بادشاہ دکن حضور نظام میر عثمان علی خاں نے آپ سے کسی معاملہ میں دعا کی درخواست کی اللہ تعالیٰ نے اس دعا کی لاج رکھی اور نظام کو اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس مل گئے۔ آپ بتاریخ ۲۹ربیع الثانی ۱۳۱۵ھ مطابق ۸ستمبر ۱۹۳۲پنجشنبہ واصل بحق ہوئے آپ کا مزار نزد مسجد الہٰی ’’سرائے الہٰی‘‘ کے قبرستان میں زیارت گاہ خلائق ہے۔