قرآنی آیات ، احادیث اور اسماء حسنیٰ سے علاج

حضرت مولانامفتی محمد عظیم الدینمفتی جامعہ نظامیہ
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید بلامعاوضہ قرآنی آیات، احادیث طیبہ، عربی اوراد اور اسمائے حسنی سے بچوں کو چھوت، پسلیوں کے اچھلنے، یرقان وغیرہ کا علاج کرتا ہے اور عطر، آب زم زم، شکر، نمک، اگر بتی، میٹھا یا کھوپرے کا تیل استعمال کرتا ہے۔ ازروئے شرع اس طرح عمل کی اجازت ہے یا نہیں؟۔ اگر کوئی مریض شفاء پانے کے بعد اپنی رضامندی سے تحفتاً کچھ رقم دے تو اس کا لینا شرعاً درست ہے یا نہیں؟۔
جواب: قرآنی آیات، احادیث شریفہ اور دعاؤں سے علاج کی شرعاً اجازت ہے۔ اگر کسی اور زبان یا شرکیہ و کفریہ الفاظ کا استعمال ہو تو شرعاً درست نہیں۔ قرآنی علاج کے بعد مریض شفایاب ہوکر بلاطلب تحفہ دے تو اس کو قبول کرنے میں کوئی ممانعت نہیں۔ فتاویٰ شامی جلد۵ صفحہ ۶۵۶۔۲۵۷ میں ہے: ولاباس بالمعاذات اذا کتب فیھا القرآن او اسماء اللہ تعالی ویقال رقاء الراقی رقیا ورقیۃ اذا عوذہ ونفث فی عوذتہ قالوا وانما تکرہ العوذۃ اذا کانت بغیر لسان العرب ولایدری ماھو ولعلہ یدخلہ سحرا و کفرا وغیر ذلک واما ماکان من القرآن او شیء من الدعوات فلاباس بہ۔
غیر مسلم کو مکان یا ملگی کرایہ پر دینا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مسلمان سکھ یا غیر مسلم کو اپنی ملگی کرایہ پر دے سکتا ہے یا نہیں؟۔
جواب: ملگی کو ضرر یا نقصان نہ پہنچنے والا کوئی کاروبار کرنے والے کو ملگی کرایہ پر دی جا سکتی ہے۔ کرایہ دار اگر کوئی خلاف شرع کاروبار کر رہا ہو تو اس کا ذمہ دار کرایہ دار رہے گا، ملگی کا مالک نہیں۔ ہدایہ کتاب الاجارہ صفحہ ۲۸۱ میں ہے: (ویجوز استیجار الدور والحوانیت للسکنی وان لم یبین مایعمل فیہ ولہ ان یعمل کل شیء) للاطلاق (الا انہ لایسکن حدادا ولاقصارا ولا طحانا) لان فیہ ضررا ظاھرا لانہ یوھن البناء فیتقید العقد بما وراء ھا دلالۃ۔
پس صورت مسئول عنہا میں مسلمان کا سکھ یا غیر مسلم کو اپنی ملگی یا مکان کرایہ پر دینا شرعاً درست ہے۔ کرایہ دار کوئی گناہ کا کاروبار کرے تو وہی اس کا ذمہ دار رہے گا، مالک مکان یا ملگی پر اس کا کوئی و زر نہیں ہوگا۔
قبرستان کی ملگیات کا کرایہ اور امام و مؤذن کی تنخواہ
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ قبرستان کی زمین پر تعمیر شدہ ملگیات کے کرایہ جات کو مسجد کے اخراجات، امام اور مؤذن کی تنخواہ میں صرف کرنا ازروئے شرع درست ہے یا نہیں؟۔
جواب: قبرستان کی آمدنی مسجد کے مصارف اور امام و مؤذن کی تنخواہ میں صرف کرنا شرعاً جائز نہیں۔ درمختار برحاشیہ ردالمحتار جلد ۳ کتاب الوقف ص ۴۰۸ میں ہے: {اتحد الواقف والجھۃ وقل مرسوم بعض الموقوف} علیہ بسبب خراب وقف احدھما {جاز للحاکم ان یصرف من فاضل الوقف الآخر علیہ لانھما حینئذ کشیء واحد} وان اختلف احدھما بان بنی رجلان مسجدین او رجل مسجدا و مدرسۃ و وقف علیھما اوقافا {لا} یجوز لہ ذلک۔
مقتول کے ورثاء کا قاتل سے صلح کرنا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کے ہاتھوں ہتھیار سے خالد کا قتل ہوا۔ مقتول خالد کے افراد خاندان اگر زید سے مصالحت کرلیں یا معاف کردیں تو کیا وہ آخرت میں ماخوذ ہوں گے؟۔
جواب: قتل عمد میں قصاص ہے اور یہ ولی کا حق ہے، نیز ولی کو معاف کرنے اور مصالحت کرنے کا بھی اختیار ہے۔ عالمگیری جلد ۶ کتاب الجنایات میں ہے: ’’اما العمد فما تعمد ضربہ بسلاح او مایجری مجری السلاح فی تفریق الاجزاء کمحدد الخشب والحجر ولیطۃ القصب والنار کذا فی الکافی۔ وموجب ذلک الما ثم والقود الا ان یعفوالاولیاء او یصالحوا ولاکفارۃ فیہ عندنا کذا فی الھدایۃ‘‘۔
پس صورت مسئول عنہا میں مقتول خالد کا ولی زید سے مصالحت کرلے یا معاف کردے تو وہ آخرت میں ان شاء اللہ ماخوذ نہیں ہوگا۔