کتنے دل اس روز (خوف سے) کانپ رہے ہوں گے، ان کی آنکھیں (ڈرسے) جھکی ہوں گی۔ کافر کہتے ہیں کیا ہم پلٹائے جائیں گے اُلٹے پاؤں (یعنی جب) ہم بوسیدہ ہڈیاں بن چکے ہوں گے۔ (سورۃ النازعات۔۸تا۱۱)
بڑے برے شیر دل اور بہادر لوگوں کے دل دھڑکنے لگیں گے اور ان کی آنکھیں فرط خوف سے جھکی ہوں گی اور آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی انھیں ہمت نہیں ہوگی۔ یہ حال کفار و منافقین کا ہوگا، لیکن اللہ تعالی کے نیک بندے اس روز ہر حزن و غم سے محفوظ ہوں گے، ان کے دل مطمئن ہوں گے، ان کی طبیعتوں میں کسی قسم کا اضطراب نہ ہوگا۔ نہ غمناک کرے گی انھیں وہ بڑی گھبراہٹ اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے، انھیں بتائیں گیہی وہ تمہارا دن ہے، جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔
جب کوئی شخص اسی راستے سے پلٹ جائے، جس پر چل کر وہ آیا ہے تو عرب کہتے ہیں: ’’جس راستہ کو وہ پہلے اپنے قدموں سے کھود آیا ہے اور اپنے نقوش پا ثبت کرآیا ہے، اسی پر وہ لوٹ گیا‘‘۔ ان آیات طیبات کو سن کر جن میں قسمیں کھاکر قیامت کے آنے کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے ہولناک مناظر بیان ہوئے ہیں، کفار ازراہِ مذاق ایک دوسرے کو کہتے: ’’کیا یہ سچ ہے کہ ہمیں پھر الٹے پاؤں پلٹادیا جائے گا‘‘ یعنی جس شاہراہ حیات پر چل کر ہم قبر کی منزل تک پہنچے ہیں، کیا پھر لحد سے اٹھاکر زندگی کی اسی روندی ہوئی راہ پر ہمیں چلنا پڑے گا۔ اور یہ واپسی اس کے بعد ہوگی، جب صدیاں گزرنے کے بعد ہماری ہڈیاں بوسیدہ اور کھوکھلی ہوکر ریزہ ریزہ ہوچکی ہوں گی، یہ بالکل اَنہونی بات ہے، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا