انہیں یہ دعا دی جائے گی جس روز وہ اپنے رب کریم سے ملیں گے ، ہمیشہ سلامت رہو اور اس نے تیار کر رکھا ہے ان کے لیے عزت والا اجر ۔ (سورۃ الاحزاب:۴۴)
اس جملہ کا ایک مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب اہل ایمان بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں گے اور شرف دیدار نصیب ہوگا، تو ایک دوسرے کو السلام علیکم کے دلنواز کلمات سے امن و سلامتی کی نوید دیں گے۔ دوسرا مطلب یہ بتایا گیا ہے کہ جب نور خداوندی بےنقاب ہوگا۔ چشم شوق اور دل حسرت مند لذت دید سے لطف اندوز ہوں گے، تو محبوب حقیقی کی طرف سے دعا دی جائے گی۔ ’’سلام‘‘ یعنی سلامت رہو ۔ کون کہتا ہے حسن کو عشق عزیز نہیں یا محبوب کو اپنے عاشق دلفگار کی پروا نہیں۔ یہاں جمال مطلق اور حسن کامل دعائیں دے رہا ہے کہ اے عشق کی بےچینیو! اور بےتابیو! تم سلامت رہو ! عشق کو یہ پذیرائی حاصل تو ہوتی ہے لیکن امتحانوں کے کئی مرحلے ذوق ویقین سے طے کرنے کے بعد بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ حسن بےنقاب کی برملا دعائیں، تو اسی وقت سامع نواز ہوتی ہیں لیکن جب کوئی نیاز منددرد وسوز سے بےچین ہو کر سوئے منزل چل پڑتا ہے تو اسی وقت سے حسن کی نوازشیں شروع ہوجاتی ہیں۔ اسے بڑا خیال رہتا ہے کہ عاشق زار دل شکستہ نہ ہوجائے۔ ہر لمحہ قدم قدم پر راہ نور وعشق کی خبر گیری کی جاتی ہے کہ کوئی راہ زن اس کی متاع شوق کو لوٹ نہ لے۔ یہ نوازشیں ہوتی ہیں تب ہی کوئی مسکین بےنوا ہجر کی طویل راتوں کو کاٹتا ہوا جدائی کے عریض صحراؤں کو طے کرتا ہوا سر نیاز ادام یا ر پر رکھنے کے قابل ہوتا ہے۔سچ تو یہ ہے عشق بھی حسن کا فیض ہے۔ عشق کی بےتابیاں بھی حسن کی عطا ہیں۔ عاشق کے صبرو استقامت میں بھی اس کی دستگیری اور اس کی کرم فرمائی شامل ہوتی ہے۔ حریم ناز کے دروازے عشق نہیں کھولتا بلکہ حسن کی دلنوازیاں آگے بڑھ کر اپنے آبلہ پا مہمانوں کا استقبال کرتی ہیں اور خود ہی ازراہ بندہ پروری اپنے رخ سے نقاب اُلٹ دیتی ہیں۔