قران

تاکہ تم جم کر بیٹھو ان کی پیٹھوں پر پھر (دلوں میں) یاد کرو اپنے رب کی نعمت کو جب تم خوب جم کر بیٹھ جاؤ انپر اور (زبان سے) یہ کہو پاک ہے وہ ذات جس نے فرماں بردار بنادیا ہے اسے ہمارے لئے اور ہم اس پر قابو پانے کی قدرت نہ رکھتے تھے۔ (سورۃ الزخرف۔۱۳)
جب تم ان کی پیٹھ پر بیٹھ کر سوئے منزل روانہ ہو تو تمہارے دل اپنے رب کریم کے شکر سے لبریز ہوں، تمہاری روحیں اس کے احسانات کی یاد سے سرشار ہوں اور اپنی ناتوانی اور بے بسی کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ان پاکیزہ کلمات سے اپنے رب کی پاکی کے تم گیت گا رہے ہو۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارا مطیع اور فرماں بردار بنادیا، ورنہ اتنا گرانڈیل اور طاقتور سرکشی پر اتر آئے تو کسی کو نزدیک نہ پھٹکنے دے۔ ایک دو لتّی جھاڑ دے تو بڑے طاقتور انسان کا کچومر نکال دے۔ اتنی طاقت والا حیوان ہمیں اپنی پشت پر لادے ہوئے کوسوں کی مسافت چپکے چپکے طے کرتا جا رہا ہے۔ نہ تھکاوٹ کی شکایت اور نہ بھوک و پیاس کا شکوہ۔ یہ اطاعت، یہ سرافگندی اے میرے رب تو نے اس کے دل میں ڈال دی ہے، ہم اس حقیقت کو بھی صدق دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ ہم سب کو تیری جناب میں ہی لوٹ کر حاضر ہونا ہے۔
اسلام کی جامعیت کی یہ بین دلیل ہے کہ اس کی روشنی سے زندگی کے سارے گوشے منور ہو رہے ہیں اور اس کے فیض سے ہماری زندگی کا ہر شعبہ بہرہ ور ہو رہا ہے۔ قرآنی آیات میں کسی سواری پر (جانور ہو یا کشتی یا کوئی اور سواری) پر سوار ہونے کے اسلامی آداب سکھائے گئے ہیں۔ یعنی بندہ مؤمن جب سفر کے لئے نکلتا ہے تو یہ دعاء کرتا ہے کہ ’’اے اللہ! سفر میں تو میرا ساتھی ہے اور میرے اہل اور مال کا نگہبان ہے۔ اے اللہ! میں سفر کی مشقتوں سے اور لوٹنے کی المناکی اور حالات کی درستگی کے بعد ابتری سے اور اپنے اہل اور مال میں برے منظر سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘۔