قران

اور کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ کلام کرے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ (براہ راست) مگر وحی کے طورپر یا پسِ پردہ یا بھیجے کوئی پیغامبر (فرشتہ) اور وہ وحی کرے اس کے حکم سے جو اللہ تعالیٰ چاہے۔ بلاشبہ وہ اونچی شان والا، بہت دانا ہے۔ (سورۃ الشوریٰ۔۵۱)
لفظ وحی کی لغوی تحقیق اور اس کے اصطلاحی مفہوم کا ذکر کرتے ہوئے صاحب تاج العروس لکھتے ہیں: ایجاء کا اصل معنی تو یہ ہے کہ رازداری میں کسی کو کچھ کہنا۔ قرآن کریم میں یوحی بعضھم الی بعض… اس کا اصلی معنی ہے۔ پھر کبھی اس کا اطلاق صرف الہام پر ہوتا ہے۔ ابو اسحاق کہتے ہیں وحی کا اصل لغوی معنی پوشیدہ طورپر کسی کو کوئی چیز بتادینا ہے، اسی وجہ سے الہام کو بھی وحی کہتے ہیں۔ ازہری کہتے ہیں: اشارہ کرنے اور لکھ کر کوئی چیز دینے کو بھی وحی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں بھی تیسرے آدمی کو خبر نہیں ہوتی۔ کلمۂ الہٰی، جس کا القاء انبیاء یا اولیاء کی طرف کیا جاتا ہے، اسے وحی کہتے ہیں اور اس وحی کی کئی قسمیں ہیں، جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ یہ وحی یا تو بذریعہ فرشتہ ہوگی، جس کو وہ نبی دیکھے گا اور اس کے کلام کو سنے گا، جس طرح جبرئیل علیہ السلام شکل معین میں حاضر ہوتے تھے۔ یا یہ وحی اس صورت میں ہوگی کہ کلام تو سنائی دے رہا ہے، لیکن متکلم دکھائی نہیں دے رہا، جس طرح موسیٰ علیہ السلام کا کلام الہٰی سننا۔ یا یہ وحی بصورت القاء ہوگی، جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’روح القدس نے یہ بات میرے دل میں ڈال دی‘‘۔ یا بذریعہ الہام ہوگی، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ’’ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو وحی فرمائی‘‘ یعنی انھیں بذریعہ الہام بتایا۔ یا یہ وحی بذریعہ تسخیر ہوگی، یعنی اس چیز کی فطرت اور طبیعت میں کوئی بات ڈال دی گئی، جس کی بجاآوری پر وہ چیز طبعاً مجبور ہے، جیسے: ’’آپ کے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی‘‘۔ یا بذریعہ خواب ہوگی، چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا: وحی کا سلسلہ ختم ہو گیا، اب خوش خبریاں رہ گئیں‘‘ یعنی مؤمن کو جو خواب دِکھائے جاتے ہیں۔