قران

آپ فرمائیے (اے گستاخ سن!) زندہ فرمائے گا انھیں وہی جس نے انھیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر مخلوق کو خوب جانتا ہے۔ جس نے (اپنی حکمت سے) رکھ دی تمہارے لئے سبز درختوں میں آگ پھر تم اس سے اور آگ سلگاتے ہو۔ (سورہ یٰسین۔۷۹،۸۰)
اے میرے محبوب! آپ منکرین قیامت کو بتائیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ بوسیدہ ہڈی کو زندہ کرنا محال ہے۔ آپ انھیں بتائیں کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو وہ ہستی زندہ کرے گی، جو خلاق و علیم ہے، جس کی قوت تخلیق کا یہ حال ہے کہ آسمان، مہر و ماہ، ستارے، فضائیں، ہوائیں، زمین، سب اشیاء اس نے محض اپنے امر کن سے پیدا کی ہیں اور جس کے علم کی وسعت کا یہ حال ہے کہ غیب و شہادۃ، ظاہر و باطن، جلی و خفی سب امور کو جاننے والا ہے۔ ذرا عقل سے کام لو، کیا ایسے خلاق و علیم کے لئے تمہاری بوسیدہ ہڈیوں میں روح ڈالنا کچھ مشکل ہے، ہرگز نہیں۔
ان اسرار و رموز کو سمجھنے کی تو تم میں اہلیت نہیں جن کے باعث کروڑوں سال گزرنے کے باوجود اس نظام عالم میں کوئی آثار کہیں نظر نہیں آتے، لیکن یہ تو ایک موٹی سی بات ہے کہ پانی اور آگ میں طبعی تضاد ہے۔ آگ کا بس چلے تو پانی کو بخارات بناکر اُڑا دیتی ہے اور اگر دہکتی ہوئی آگ پر پانی ڈال دیا جائے تو وہ بجھ جاتی ہے۔ اس طبعی تضاد کے باوجود اس نے سرسبز درختوں میں آگ اور پانی کو یکجا کردیا ہے۔ یہی گیلی لکڑی جب کاٹ کر اس سے آگ جلائی جاتی ہے تو اس سے آگ کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں۔ یقیناً جو ذات ان امور پر قادر ہے، اس کے لئے تمہاری بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔