قران

اور دے دو یتیموں کو ان کے مال اور نہ بدلو (اپنی) ردّی چیز کو (ان کی) عمدہ چیز سے اور نہ کھاؤ ان کے مال اپنے مالوں سے ملاکر واقعی یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ (سورۃ النساء۔۲)
یتیموں پر طرح طرح کے ظلم کئے جاتے، جب کسی کا والد فوت ہو جاتا اور یتیم بچے چھوڑ جاتا تو اس کے چچا اور بڑے بھائی سارے مال پر قبضہ کرلیتے اور یتیم کے بالغ ہونے پر بھی اس کا مال اسے واپس نہ کرتے یا یتیم کے اعلیٰ نسل کے فربہ جانور خود رکھ لیتے اور گنتی پوری کرنے کے لئے اس کو ردّی نسل کے دُبلے اور لاغر جانور دے دیتے اور یوں بری الذمہ ہو جاتے۔ تیسری صورت یہ ہوتی کہ یتیموں کے اموال کو اپنے اموال میں خلط ملط کردیتے اور حفاظت کے بہانہ سے سب آہستہ آہستہ ہڑپ کرجاتے۔ ان تمام صورتوں کو تفصیل سے ذکر کردیا اور ایسا کرنے سے سختی سے روک دیا اور بتادیا کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے اور اس کی سزا بہت سخت ہے۔
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جن یتیم بچیوں کے سر سے باپ کا سایہ اُٹھ جاتا، ان کے سرپرست ان کے مال اور جمال کی وجہ سے ان کو اپنی زوجیت میں لے لیتے، کیونکہ ان کے حقوق کا محافظ اور ان کے دُکھ درد میں ان سے ہمدردی کرنے والا کوئی نہ ہوتا، اس لئے عام طورپر نہ تو ان یتیم بچیوں کے ساتھ نکاح کرتے وقت ان کو ان کی حیثیت کے مطابق مہر دیا جاتا اور نہ نکاح کے بعد ان کے حقوق ادا کئے جاتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ جب تمھیں اندیشہ ہو کہ تم ان بے سہارا بچیوں کے حقوق کی نگہداشت نہیں کرسکوگے تو ان کے ساتھ نکاح نہ کرو، بلکہ ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے جو تمھیں پسند ہوں چار تک نکاح کرسکتے ہو۔