مولانا غلام رسول سعیدی
ہواؤں کا وجود انسان کے سانس لینے کا مادہ ہے، اگر ایک لمحہ کے لئے بھی ہوائیں بند ہو جائیں تو انسان اور حیوان میں سے کوئی ذی روح زندہ نہ رہ سکے۔ انسان اپنی زندگی کی بقاء میں ہوا، پانی اور خوراک کا محتاج ہے، ان میں سب سے زیادہ احتیاج اور ضرورت ہوا کی ہے، کیونکہ اس کے بغیر کوئی ذی روح ایک پل بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کے بعد پانی کی ضرورت ہے، کیونکہ خوراک کی بہ نسبت انسان پانی کا زیادہ محتاج ہے۔ نظام قدرت پر غور کیجئے کہ انسان کو اپنی بقاء کے لئے جس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، جس کے بغیر وہ ایک منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا تھا، اس کا حصول اس نے سب سے سہل اور آسان کردیا ہے کہ انسان ہو یا حیوان، وہ بغیر کسی مشقت کے ہر وقت اور ہر جگہ ہوا کو بآسانی حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے حصول کے لئے اس کو نہ کوئی قیمت اور ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، نہ کسی کا زیر احسان ہونا پڑتا ہے۔ پانی کی ضرورت بقائے انسانی کے لئے ہوا کی بہ نسبت کم ہے، اس لئے اس کا حصول بھی اس قدر عام نہیں ہے، تاہم ایک ذی روح دن میں متعدد بار پانی پینے کی ضرورت محسوس کرتا ہے،
اس لئے پانی اگرچہ ہر وقت اور ہر جگہ دستیاب نہیں ہوتا، تاہم اس کی متوسط ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالی نے ایسے ذرائع پیدا کردیئے ہیں کہ وہ بعض صورتوں میں بغیر کسی مشقت اور قیمت کے پانی حاصل کرلیتا ہے اور بعض صورتوں میں معمولی مشقت اور قیمت سے اسے ضرورت کے مطابق پانی حاصل ہو جاتا ہے اور غذا و خوراک کی ضرورت چوں کہ ہوا اور پانی کی بہ نسبت کم ہوتی ہے، اس لئے اس کو غذا وغیرہ کے حصول کے لئے بہرحال مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔
غور کیجئے کہ انسانی بقاء اور اس کی ضرورت کے مطابق جس ذات نے ہوا، پانی اور خوراک کا یہ نظام بنایا ہے، کیا آپ اس ذات کی عظیم حکمت اور علم کا انکار کرسکتے ہیں؟ جب کہ وہ ذات ہمہ وقت اور ہر جگہ ہواؤں کے سمندر کو رواں دواں رکھتی ہے۔ کیا اس کی بے پناہ قدرت کا انکار کیا جاسکتا ہے؟۔ انسانی ضروریات کے مطابق ہوا، پانی اور خوراک کی ترسیل کو کیا کوئی شخص ایک اتفاقی حادثہ قرار دے سکتا ہے؟۔ جو شخص غور و فکر اور تدبر سے بالکل عاری نہیں ہو گیا، اس کو بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کائنات کے نظام کے پیچھے ایک ہستی اعلی اور مطلق العنان قادر و قاہر حکمراں کی تدبیر اور حکمت کام کر رہی ہے اور اس عظیم و وسیع کائنات میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ اس کی حکمت اور قدرت کا منہ بولتا شاہکار ہے۔
ہواؤں سے ہم فقط سانس ہی نہیں لیتے، دریاؤں میں روانی، سمندروں میں طلاطم، اطراف عالم میں کھیتوں اور باغات کی نشو و نما، سمندروں میں جہازوں کی آمد و رفت، بادلوں کی گردش اور بارشوں کا حصول، یہ تمام امور اس صناع مطلق کی پیدا کردہ ہواؤں کے سبب سے ہیں۔ اگر وہ چند ساعتوں کے لئے بھی ہواؤں کو چلنے سے روک لے تو ساری کائنات کا نظام معطل ہوکر رہ جائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ’’اور اللہ تعالی کی قدرت پر نشانیوں میں سے ایک نشانی سمندروں میں رواں دواں پہاڑوں کی مانند جہاز ہیں، اگر اللہ چاہے تو ہواؤں کو روک لے اور یہ جہاز سمندر میں کھڑے کے کھڑے رہ جائیں‘‘ (الشوریٰ۔ ۳۲،۳۳) نیز فرمایا ’’اور اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے بعض یہ ہیں کہ وہ ایسی ہوائیں بھیجتا ہے، جو تمھیں بارش کی آمد کی خوش خبری دیتی ہیں، تاکہ تم اسسے حظ رحمت لے سکو اور ان ہی ہواؤں سے اس کے حکم سے جہاز چلتے ہیں، تاکہ تم (تجارت کے ذریعہ) اللہ کا فضل ڈھونڈ سکو اور اس نعمت پر اس کا شکر ادا کرسکو‘‘۔ (الروم۔۴)
اللہ تعالی نے ہوائیں دو قسم کی پیدا فرمائی ہیں، آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ۔ ہم سانس کے ذریعہ آکسیجن لیتے ہیں، پھر ہمارے جسم اور خون میں جو گندے اور زہریلے مادے ہیں، وہ اس آکسیجن کو کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل کردیتے ہیں اور جب ہم سانس باہر چھوڑتے ہیں تو وہ ہوا کاربن سے بھری ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالی نے درختوں میں یہ خاصہیت رکھی ہے کہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرلیتے ہیں اور تازہ آکسیجن چھوڑتے رہتے ہیں۔ غور کیجئے کہ اگر درختوں کا وجود نہ ہوتا یا درختوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کی خصوصیت نہ ہوتی تو یہ فضاء ہمارے سانسوں کے ذریعہ چھوڑی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پراگندہ ہو جاتی ہے۔ سانس لینے کے لئے تازہ آکسیجن کا ملنا محال ہو جاتا اور زہریلی و بدبودار ہواؤں میں ہم گھٹ گھٹ کر مرجاتے۔ ہماری ضرورت کے مطابق درختوں میں کاربن کو جذب کرنے اور آکسیجن کو چھوڑتے رہنے کی خصوصیت کیا خود بخود پیدا ہوتی ہے یا یہ کسی اتفاقی امر کا نتیجہ ہے؟ یا کسی جلیل الشان مدبر اور رفیع المرتبت حکیم کی عظیم ترین حکمت اور قدرت کا ثمرہ ہے؟۔ اگر ہم انصاف کا خون کرنے پر آمادہ نہیں ہو گئے اور ہٹ دھرمی پر نہیں اتر آئے تو لامحالہ ہمیں کہنا پڑے گا کہ ہواؤں میں جو خصوصیات، حکمتیں اور فوائد مضمر ہیں، یہ صرف اور صرف اللہ عزوجل کی قدرت کا ثمرہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: ’’اللہ ایسی ہوائیں بھیجتا ہے جو بخارات کو بادل بنادیتی ہیں، ان بادلوں کو فضاء میں پھیلا دیتا ہے جس طرح چاہتا ہے‘‘۔ (الروم۔۴۸)