قانون فطرت سے بغاوت کا اندوہناک انجام اوراس کا حل

رشتہ ازدواج ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو چاہت ومحبت ، خلوص ووفا ،ایثاروقربانی جیسے پاکیزہ جذبات سے عبارت ہے۔یہ رشتہ تمام مذاہب میں مقدس اورقابل احترام مانا گیاہے،رشتہ نکاح کا مقصودنسل انسانی کا تحفظ ہے،عورت ومردکی جائزو پاکیزہ یکجائی سے اولادہوتی ہے اوراولاد کا نسب ماں باپ سے ثابت ہوتا ہے۔اس سے کئی ایک پاکیزہ ومقدس رشتے بنتے ہیں اور ایک خاندان تشکیل پاتاہے ۔سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ نے اس رشتہ کی پاکیزگی اوراس کے تقدس کے تاروپودبکھیردئیے ہیں،۲۷؍ستمبر ۲۰۱۸؁ء روزپنچشنبہ سپریم کورٹ نے زناکوجرم قراردینے والے ۱۵۷سالہ شق کوغیرآئینی قراردیدیا،پانچ رکنی آئینی بنچ نے تعزیرات ہند(آئی پی سی)کی دفعہ ۴۹۷ سے(اڈلٹری آپسی رضامندی سے ناجائزجنسی تعلق ) کے جرم ہونے کے قانون کوغیرآئینی قراردیاہے،عدالت نے اس سے متعلق (سی آرپی سی)کی دفعہ ۱۵۸کے ایک حصہ کوبھی منسوخ کردیاہے۔اس افسوسناک فیصلہ میں عورت کوازدواجی بندھن میں بندھ جانے کے باوجوداپنی پسندسے کسی بھی مردسے جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دیدی گئی۔ العیاذباللہ،اس فیصلہ میں چیف جسٹس دیپک مشرانے انوکھے گل کھلائے ہیں،کہا ہے کہ زنا یا شادی کے بعد ناجائزتعلقات کوشادی سے الگ ہونے کی بنیادبنایا جاسکتاہے لیکن جرم نہیں سمجھاجاسکتا ۔سوال یہ ہے کہ جب ناجائز جنسی تعلقات کوئی جرم ہی نہیں ہیں توپھراس کوشادی سے الگ ہونے کی بنیادبنایا جانا محل نظر ہے،اسی طرح یہ بھی کہا ہے کہ صرف زنا کوجرم نہیں مانا جاسکتا بلکہ اگرکوئی بیوی اپنے شوہرکی زنا کاری کے سبب خودکشی کرتی ہے اوراس سے جڑے ثبوت ملتے ہیں تویہ جرم (خودکشی کے لئے اکسانے)کے زمرہ میں آئے گا۔کمال ہے جب زنا ہی سرے سے کوئی گناہ اور جرم نہیں ہے توپھرکوئی خاتون خودکشی کیوں کرے اور پھراس کوخودکشی کے لئے اکسانے کے زمرہ میں کیونکرشامل کیا جاسکے گا؟حیرت واستعجاب اس بات پرہے کہ ایسا فیصلہ دینے والے عدالت عالیہ کے تعلیم یافتہ لائق وفائق مدبرانہ صلاحیت کے حامل مذاہب کی تعلیمات پرگہری نظررکھنے والے اوررازہائے فطرت سے واقف ججس ہیں،ماہ ستمبرکے آغازپرسپریم کورٹ کے یہ قابل احترام ججس نے ہم جنس پرستی کوجرائم کے زمرہ سے خارج کرنے کا فیصلہ دیا تھا،اوراب غیرازدواجی جنسی تعلقات سے وابستہ دفعہ ۴۹۷کوغیرآئینی قراردیدیا ہے۔ہمارا ملک ہندوستان کئی ایک مذاہب کے ماننے والوں کا گہوارہ ہے،تمام مذاہب کی تعلیمات زنا کوجرم قراردیتی ہیں،ہماراملک مشرقی تہذیب کا علمبردارہے اورہمارے ملک کا کلچر’’شرم وحیاء ‘‘ جیسی اعلی قدروں کا محافظ ہے،بے حیائی وآبروباختگی کا کلچرمغربی کلچرہے جومشرقی تہذیب کے بالکلیہ مغائرہے۔اللہ سبحانہ نے انسانوں کی طرح تمام مخلوقات میں نرومادہ پیداکرکے ان کیجوڑے بنائے ہیں ظاہرہے ا سکا مقصدانسانوں کی طرح مخلوقات کی تمام اقسام کا تحفظ ہے ،اگرایک عورت کسی مردکے ساتھ نکاح کرنے کے بعداجنبی مردوں کے ساتھ آزادانہ جنسی تعلقات قائم کرتی رہے گی تواس کی کوکھ میں پلنے والی اوراس سے پیداہونے والی اولادکس کی مانی جائے گی؟ مغربی تہذیب نے آزادی وروشن خیالی کے شیطانی تصور کوپروان چڑھاکر مردوزن کے درمیان اختلاط ،عریانیت وفحاشی اورجنسی آوارگی کوبڑھاوادیا ہے جس سے نکاح کے پاکیزہ نظام پرضرب پڑی ہے۔

اکثر نومولود بچوں کے باپ کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے،حرامی بچوں کی کثرت مغربی سماج میں ایک بہت بڑابوجھ بن گئی ہے،اگریہی لیل ونہاررہے توپھرمشرق کوبھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ہمارے ملک میں آئے دن جنسی رقابت کی وجہ قتل وخون کے واقعات رونما ہورہے ہیں ،ذات برادری کے باہرشادی کے واقعات میں غیرت وحمیت کی وجہ کہیں لڑکی کا توکہیں لڑکے کا قتل جیسے واقعات بھی اخبارات کی زینت بن رہے ہیں، کسی کی بیوی اجنبی مردوں سے آزادانہ جنسی میل ملاپ بنائے رکھے گی توکیا اس کا غیرت مندباپ یا بھائی اورشوہراس کوگوارہ کریگا؟آیا اس فیصلہ کی وجہ ملک میں قتل وخون کے جرائم میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا؟شادی شدہ جوڑوں کوآزادانہ جنسی میل ملاپ کی اجازت کے ساتھ ایک اور قانون کی رو سے ۱۸؍سالہ لڑکی اور۲۱؍سالہ لڑکے کوبشرط رضامندی زنا کی اجازت دی گئی ہے اس طرح سے مشرقی تہذیب کے خلاف شرم وحیاء سے عاری بے حیائی وبے شرمی پرمبنی جنسی تعلقات کی آزادی اوراس بے راہ روی کوسندجوازدینے والے قانونی اداروں پراس وقت سوالیہ نشان لگ جاتاہے جب یہی قانونی ادارے ایک بیوی کے رہتے ہوئے دوسری عورت سے شادی کرنے کوجرم قراردیتے ہیں ،اورکھلے عام شادی شدہ مردیا عورت کسی اورشادی شدہ یا غیرشادی شدہ مردوعورت سے رضامندی کے ساتھ ناجائزجنسی تعلق قائم کرسکتے ہیں تونکاح کے ذریعہ کوئی مردکسی خاتون کودوسری بیوی کی حیثیت سے شریک سفربنائے تو اس کوقابل تعزیرجرم کیسے قراردیا جاسکتاہے؟ہم جنس پرستی،لیوان ریلیشن شپ) (Live-in Relationship کوبھی ہمارے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے سندجوازعطاکرکے خالق فطرت کے منشاء سے انحراف اور مذہبی احکامات کی جہاں مخالفت کی ہے وہیں سماج کے پاکیزہ روایات اوراخلاقی اقدارکوپامال کیا ہے،مردکادوسرے مردسے یا کسی عورت کا دوسری عورت سے نکاح کرنا یانکاح کے بغیرآپسی غیرفطری جنسی تعلق قائم کرنا اورمردوں وعورتوں کے درمیان ناجائزجنسی تعلقات کو فروغ دینا گویا عذاب الہی کودعوت دینا ہے،ہم جنس پرستی کی وجہ قوم لوط پرپتھروں کی بارش کی شکل میں عذاب آیاتھالیکن موجودہ دور میں یہ عذاب ایڈس جیسی لاعلاج بیماری کی شکل میں سماج کے ان حصوں کوگھن کی طرح کھوکلا کررہاہے جہاں یہ جرائم عام ہیں۔ہم جنس پرستی وہ برائی ہے جسے جانوربھی پسندنہیں کرتے لیکن انسان جواشرف المخلوقات ہیں وہ اگر اس گھنائونے جرم کوجرم وگناہ نہ سمجھیں بڑے تعجب کی بات ہے۔

الغرض محقق سائنسدانوں کی رائے یہ ہے کہ نکاح سے پہلے یا نکاح کے بعدزنامیں مبتلاہونے والے اور غیرفطری جنسی تعلق قائم کرنے والے،غیرمحفوظ جنسی تعلق کی بناء اس مرض کا شکارہورہے ہیں، اس بیماری سے اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جس میں مردوعورت ،نوجوان لڑکے اورلڑکیاں سبھی شامل ہیں۔ اس مرض کی اصل تشخیص کے بجائے محفوظ جنسی تعلق قائم کرنے کی فکرکوعام کرنے کیلئے انسانی ہمدردی کے نقطئہ نظرسے دنیا بھرمیں کئی تنظیمیں قائم ہوچکی ہیں،جس میں کنڈوم کے استعمال کی صلاح دی جارہی ہے جواربوں کھربوں روپئے خرچ کرکے اس بیماری کے خاتمہ کیلئے کوشاں ہیں لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی‘‘کے مصداق مرض کا خاتمہ تو نہیں ہوپا رہا ہے البتہ مغربی حیاء سوزکلچرضرورسماج میں پنپ رہاہے جس سے مرض ایڈس ہے کہ روزبروزبڑھتا ہی جارہاہے،مقصدمیں ناکامی کی اصل وجہ غلط رخ پرکی جانے والی محنت ہے،یہی محنت خالق فطرت کے بنائے ہوئے قانون کے نفاذکیلئے کی جاتی توسماج ’’مرض ایڈس‘‘ کے عذاب میں گرفتار ہی نہ ہوتا، خالق حقیقی کی معرفت سے محرومی اوراس کے فطری احکام سے انحراف اوراس کے منشاء سے بغاوت یہ بھی ایک عذاب ہی ہے تبھی توتعلیم وتحقیق میں نمایاں مقام بنانے والا سماج آج بھی فطرت کے راز ہائے سربستہ کوسمجھنے سے قاصر ہے،اس مرض کوپھیلنے سے بچانے کا واحد حل اسلام اوراسلام کا ’’نظام نکاح‘‘ہے ،یہ وہ حل ہے جوانسانوں نے نہیں بلکہ خودخالق فطرت نے بتایا ہے۔اس فکرکوگہری بصیرت کے ساتھ عام کیا جائے اسی میں مغرب ومشرق کے سارے انسانوں کیلئے عافیت کا سامان ہے اور چین وسکون ،راحت وآرام سے معمورخوشگوارزندگی کا رازبھی اسی میں مضمرہے۔زنا کی وہ ساری صورتیں جومغربی کلچرکی دین ہیں اورجس کواب مشرقی تہذیب کے علمبردارملک کی عدالت عالیہ سپریم کورٹ جرائم کے زمرہ سے خارج کرکے آخرچاہتی کیا ہے یہ بھی ایک سوال ہے؟کیا ان فیصلوں سے جدید ثقافت کے نام سے بوائے فرینڈکلچر،گرل فرینڈ کلچرجیسے آزادانہ ماحول کو فروغ نہیں ملے گا؟دنیا کوشرم وحیاء سے عاری فواحش ومنکرات سے بھرپور سماج میںتبدیل کرنے کی غرض سے مغربی ممالک کے ایک فحش گروپ نے عریانیت کو Pornographic Industry کے نام سے تشکیل دیا ہے،جس کا مقصد غیرقانونی ناجائزتعلقات ہم جنس پرستی کودنیا کے گوشہ گوشہ میں عام کرنا ہے۔ کیا ہمارا پاکیزہ مشرقی سماج اس برائی سے محفوظ رہ سکے گا؟معززومؤقر ججس صاحبان کیا ہمارے ملک کو بھی اسی ڈگرپرلیجانا چاہتے ہیں ؟ انسانوں کے بنائے ہوئے ملکوں کے دساتیراورمفادعامہ کیلئے بنائے گئے ملکی قوانین کی خلاف ورزی جب قابل دست اندازی جرم ہے توخالق فطرت کے بنائے ہوئے انسانی مفادپرمبنی قوانین فطرت کی خلاف ورزی کے مرتکبین کیا خالق ومالک کی گرفت سے بچ سکیں گے؟ اس کوکھوجنے اورانسانوں کواحکام فطرت سے بغاوت کرنے سے بچانے اورفطری احکام کے مطابق زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھانے کی سخت ضرورت ہے۔اس مقصدکی تکمیل کیلئے موجودہ بے چین وبے قراراورمضطرب چین وسکون سے محروم سماج کو سکوں بخش اورروح پرورماحول فراہم کرنے کیلئے امت مسلمہ کوخیر امت ہونے کی اپنی ذمہ داری کونبھانے کی سخت ضرورت ہے اورساری دنیا کویہ پیام دینے کی ضرورت ہے کہ خالق فطرت نے ایک عظیم اورپاکیزہ مقصد سے نکاح کے بندھن کو ساری انسانیت کیلئے پسندکیا ہے ،اس کے بغیرناجائزبے نکاحی اورغیرفطری تعلق کا قیام اللہ سبحانہ کی دی ہوئی توانائیوں کوضائع کرنا ہے ،کیا کوئی دانشمند کسی بنجراورپتھریلی زمین میں بیج بونے اورکاشتکاری کے مقصدسے اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنے کوپسند کرسکتاہے ؟نکاح کا مقصدجہاں معاشرہ کوجنسی آوارگی سے بچانا اورصنفی تعلقات کوجائز پاکیزہ دائرہ میں محصور رکھنا ہے وہیں نسل انسانی کا تحفظ بھی اس سے مقصودہے،مردوعورت کوپیداکرنے والے خالق ومالک نے عورتوں کومردوں کی کھیتوں سے تعبیرکیا ہے’’تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آئو اوراپنے لئے نیک اعمال آگے بھیجو اوراللہ سبحانہ سے ڈرتے رہاکرواورجان رکھوکہ تم اس سے ملنے والے ہو اورایمان والوں کوخوشخبری سنادیجئے‘‘(البقرہ:۲۲۳)عورتیں گویا بمنزلہ کھیتی کے ہیں جس میں نطفہ تخم اوراولاد بمنزلہ پیداوارکے ہے ،یہ ایک بلیغ استعارہ ہے جومردوزن کے نکاحی تعلق کے مقصدکومعجزانہ کلام میں تمثیل کی زبان میںبیان کیا گیا ہے: ای ما ہو کالحرث ففیہ استعارۃ تصریحیۃ۔۔۔۔۔والاول اظہر واوفق لتفریع حکم الاتیان علی تشبیہن بالحرث تشبیہا بلیغا(روح المعانی:۲؍۱۲۴)ساری مخلوقات کے خالق ومالک نے موت وحیات اس لئے پیدافرمائے ہیں تاکہ تم کوآزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے ،نسل انسانی کی بقاء اوراس کے تحفظ سے مقصودیہی ہے کہ دنیا سے جانے والے انسانوں کی جگہ اوردوسرے انسان سنبھالیں ۔ اوردنیا سے جانے والا ہرانسان اپنے لئے ایمان واعمال صالحہ کا توشہ ساتھ لے جائے اوراپنی جگہ ایسی پاکیزہ نسل کوجانشین بنائے جومومنانہ کیفیات، انسانی شرافت واخلاق کے عالی جواہرسے مرصع ہو۔