قانون حق تعلیم کے باوجود اسکولس میں جبراً فیس کی وصولی

حیدرآباد ۔ یکم ؍ جنوری (سیاست نیوز) خانگی اسکولوں کی جانب سے بے تحاشہ فیس کی وصولی کی شکایات کے بعد سرکاری سطح پر فیس میں توازن پیدا کرنے کوششیں کچھ حد تک کارآمد ثابت ہوئیں لیکن بیشتر نام نہاد معیاری اسکول سمجھے جانے والے اداروں میں آج بھی فیس کے تعین سرکاری احکامات کا خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ کئی ایسے اقدامات ان اسکولوں میں کئے جارہے ہیں جو کہ نہ صرف طلبہ بلکہ اولیائے طلبہ کو بھی شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کی جانب سے بے تحاشہ فیس کی وصولی کی شکایت کے باوجود اولیائے طلبہ اپنے بچوں کو بہتر اسکولوں میں تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے حتی الامکان کوشش کرتے ہیں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان بھی بہتر سے بہتر تعلیم کی فراہمی کیلئے کوشاں رہتے ہیں لیکن بسااوقات ان خاندانوں کو انتہائی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب اسکول انتظامیہ فیس کی عدم ادائیگی پر امتحانات میں شرکت سے روکنے کی دھمکیاں دینے لگتا ہے ۔ عموماً اسکول انتظامیہ امتحانات میں شرکت سے طلبہ کو روکتا نہیں ہے لیکن انتظامیہ کی جانب سے دی جانے والی اس طرح کی دھمکیاں اولیائے طلبہ کیلئے باعث شرمندگی ثابت ہوتی ہیں ۔ خانگی تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں کا استدلال ہے کہ بروقت فیس کی عدم ادائیگی کے سبب اس طرح کے سخت گیر الفاظ ادا کرنے پڑتے ہیں جبکہ اولیائے طلبہ بالخصوص متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے والدین کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں بچوں کی بروقت فیس کی ادائیگی میں کچھ تاخیر ہوتی ہے جسے اسکول انتظامیہ کو برداشت کرنا چاہیے

لیکن اسکول انتظامیہ کی جانب سے دیگر طلبہ اور اولیائے طلباء کے درمیان فیس نہ ادا کرنے والے والدین اور سرپرستوں سے اسکول کی جانب سے دھمکی والے انداز میں فیس کا طلب کیا جانا مناسب عمل نہیں ہے ۔ خانگی اسکولوں میں بے تحاشہ فیس کی وصولی کی شکایات عام ہیں لیکن اس شکایت کے علاوہ خانگی اسکول جن سرگرمیوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں ان سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خانگی تعلیمی ادارے جات تجارتی اساس پر نہ صرف تعلیم فروخت کررہے ہیں بلکہ تعلیم سے جڑے ہوئے تمام اشیاء بشمول یونیفارم اور جوتے تک یہ ادارے فروخت کرنے میں مصروف ہیں ۔ اتنا ہی نہیں حالیہ دنوں میں پرانے شہر میں ایک اسکول کے ذمہ داران کی جانب سے اسکول کے قریب شروع کردہ اسٹیشنری کی دوکان کو جبراً بند کرنے کی دھمکیاں دیئے جانے کی اطلاعات موصول ہوئیں ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ اسکول انتظامیہ نے اسٹیشنری مالک کو انتباہ دیا کہ اگر فوری اسٹیشنری بند نہیں کی گئی تو سنگین نتائج برآمد ہوں گے ۔ تحقیق پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ مذکورہ اسکول کی اپنی اسٹیشنری اسکول کے احاطہ میں ہی چلائی جاتی ہے ۔ خانگی تعلیمی اداروں کی جانب سے تعلیم کے فروغ کے بجائے تعلیم کی فروخت کو جو موقعہ فراہم کیا جارہا ہے اس کے نتائج منفی برآمد ہورہے ہیں ۔

حکومت کی جانب سے اگر سرکاری اسکولوںمیں بہتر بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جاتی اور معیار تعلیم کو بہتر بنایا جاتا تو خانگی تعلیمی اداروں کو اتنا عروج حاصل نہیں ہوتا لیکن حکومت کی کوتاہی کے نتیجے میں جو خانگی تعلیمی ادارے کارپوریٹ انداز میں اپنے اسکول چلارہے ہیں وہ من مانی پر اتر آئے ہیں ۔ ان تعلیمی اداروں پر کنٹرول کرنے والا کوئی نہیں ہے چونکہ محکمہ تعلیم میں جو عہدیدار اسکولی تعلیم اور دیگر قوانین کو نافذ کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں وہ عہدیدار تعلیمی اداروں کے اس عمل کی مبینہ پردہ پوشی کیلئے اپنی چاندی پر توجہ مرکوز کرتے ہیں ۔ خانگی تعلیمی اداروں میں نہ صرف فیس کی وصولی میں موجود بے قاعدگیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ فیس کے لئے حکومت کی جانب سے متعین کردہ تختہ کو لازمی بنایا جانا چاہیے ۔ علاوہ ازیں مرکزی حکومت کی جانب سے 14 سال سے کم عمر بچوں کو دیئے گئے قانون حق تعلیم کے تحت 25 فیصد مفت داخلوں کو یقینی بنانے کے اقدامات بھی ناگزیر ہیں ۔ اگر فوری طور پر ضلع انتظامیہ حرکت میں آتے ہوئے اقدامات کا آغاز کرتا ہے تو ایسی صورت میں آئندہ تعلیمی سال کے آغاز سے قبل ان تمام امور کی انجام دہی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ عین تعلیمی سال کے آغاز سے قبل اس مسئلہ پر سرسری گفتگو ہوتی ہے اور پھر مسئلہ کو ایک سال کیلئے ملتوی کردیا جاتا ہے ۔ ایسا نہ ہو اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ حکومت اور ضلع انتظامیہ فوری طور پر متحرک ہوتے ہوئے ان امور کو یقینی بنانے کی کوشش کرے ۔