فی خاندان ایک قربانی ، اگر صاحب نصاب بھی ایک ہو

محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد۔21 ستمبر ۔ قربانی کے مسئلہ پر جاری مباحث سے نمٹنے کیلئے مختلف گوشوں بالخصوص علماء نے عوام پر یہ واضح کردیا ہے کہ قربانی کے مسائل بہت آسان ہیں اور ہر صاحب ِنصاب شخص پر قربانی واجب ہے۔ بعض گوشوں کی جانب سے جاری غلط تشریحات کی بنیاد پر پھیل رہی غلط فہمیوں کو دور کرنے کیلئے علماء نے یہ واضح کیا ہے کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کے علاوہ دیگر ائمہ کرام نے بھی ہر صاحب استطاعت پر قربانی کو لازم قرار دیا ہے۔ صاحب استطاعت کے متعلق آسانی سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ جس شخص پر زکوۃ فرض ہو، اس شخص پر قربانی واجب ہوگی لیکن زکوۃ کی ادائیگی کے لئے مال پر ایک سال مکمل ہونا لازمی ہے جبکہ قربانی کے لئے ایسا نہیں ہے۔ اگر ایام قربانی کے دوران یعنی عیدالاضحی اور اس کے بعد 11 اور 12 ذی الحجہ کو کسی شخص کے پاس ضروریات زندگی سے زائد مال نصاب کے بقدر اگر پہنچ جاتا ہے تو اس پر قربانی واجب ہے۔مولانا مفتی عظیم الدین صدر مفتی جامعہ نظامیہ نے اس حدیث اور قربانی کے احکام کے متعلق تفصیلی فتویٰ جاری کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ہر صاحب نصاب پر ایک قربانی لازم ہے۔   قربانی کے لئے شریعت مطہرہ نے وضاحت کے ساتھ یہ احکام صادر کردیئے ہیں کہ ایک بڑے جانور یعنی بیل، بھینس، اونٹ یا اونٹنی میں سات (7) افراد کو شامل کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی واضح حکم دیا جاچکا ہے کہ چھوٹے جانور یعنی بکرا، دُنبہ، بکری یا بھیڑ میں ایک حصہ ہوگا۔ تمام ائمہ کرام کا اتفاق اس بات پر ہیکہ ایک بڑے جانور میں سات حصے اور چھوٹے جانور کو ایک صاحب نصاب کی جانب سے واجب قربانی کے طور پر ذبح کیا جاسکتا ہے۔مولانا عبدالمغنی مظاہری ناظم مدرسہ سبیل الفلاح نے بتایا کہ ترک نفل پر کوئی وعید نہیں ہے لیکن ترک واجب پر وعید ہے۔ قربانی دیگر فرض علی العین کی طرح ہر صاحب نصاب پر واجب علی العین ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے استطاعت رکھتے ہوئے قربانی نہ دینے والوں کو عیدگاہوں کے قریب بھی نہ آنے کا حکم دیا ہے۔انہوں نے اس مسئلہ کو الجھن کا شکار نہ بنانے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ چند افراد کی جانب سے واجب ادا کیا جائے اور کچھ لوگوں کا واجب رہ جائے تو ترک واجب کے گناہ گار ہو بھی ہوں گے۔ جنہوں نے یہ الجھنیں پیدا کی ہیں۔ قربانی کے متعلق واضح احکامات کے بعد ہی چند افراد کی جانب سے بعض احادیث کا جو حوالہ پیش کرتے ہوئے یہ استدلال دیا جارہا ہے کہ ایک خاندان کی جانب سے ایک بکرے یا بکری کی قربانی کی ادائیگی سے قربانی کا عمل مکمل ہوجائے گا اور تمام کی جانب سے قربانی ادا ہوجائے گی۔ مولانا احسن بن محمد الحمومی نے اس سلسلے میں وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا کہ جو صورت مذکورہ حدیث میں پیش کی گئی ہے، اس کی تاویل غلط انداز میں کی جارہی ہے جس کی وجہ سے یہ گمراہی پیدا ہورہی ہے۔ شارحین حدیث نے بھی قربانی کے احکام کے متعلق واضح احادیث کو پیش کرتے ہوئے یہ درس دیا ہے کہ ہر صاحب نصاب پر قربانی واجب ہے اور ایک گھر میں اگر ایک سے زائد افراد صاحب نصاب ہوں تو ہر شخص کی جانب سے علحدہ قربانی دینا لازمی ہے۔ جس حدیث شریف کا سہارا لیتے ہوئے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ایک قربانی ایک خاندان کی جانب سے ہوسکتی ہے، اس کے متعلق ائمہ کرام و شارحین حدیث کا کہنا ہے کہ جس حدیث شریف کا حوالہ دیا جارہا ہے، وہ حدیث شریف نفل قربانی کے متعلق ہیں جبکہ واجب قربانی کے سلسلے میں نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت کے علاوہ صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کے کئی واقعات موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نے اپنی ازدواج مطہراتؓ کے لئے قربانی دی ہے، اسی طرح ایک اور واقعہ ملتا ہے جس میں نبی آخری الزماں ؐ نے اپنی دُختر خاتون جنت سیدۃ النساء حضرت بی بی فاطمۃ الزہرہؓ کو حکم دیا کہ اپنی قربانی کے قریب موجود رہو۔ اسی طرح ایک اور روایت میں حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی کریم ؐ کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اور عرض کیا : یا رسول ؐاللہ ! میرے ذمہ ایک اونٹ ہے ، میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں جبکہ مجھے خریدنے کیلئے اونٹ دستیاب نہیں ہے تو نبی کریم ؐ نے انہیں حکم دیا کہ سات بکریاں خریدیں اور انہیں ذبح کریں۔ زمانہ دراز سے اس مسئلہ پر کوئی تنازعہ نہ پیدا ہوا تھا اور نہ ہی کسی نے اس معاملے پر کسی طرح کی بدگمانی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔
صاحب نصاب کی تشریح
٭٭ صاحب نصاب و استطاعت کے متعلق جو صراحت شریعت میں موجود ہے، اس اعتبار سے صاحب نصاب شخص کا 20 مثقال سونا رکھنا ضروری ہے جو کہ موجودہ زمانہ میں قدر کے مطابق 7.5 تولہ سونا یا پھر 612 گرام چاندی یا اس کے مماثل رقم کا رکھنا ہے۔ علماء میں 20 مثقال سونا اور 200 درہم چاندی کی موجودہ مقدار کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض نے تقریباً 6 تولہ سونا رکھنے والے کو صاحب نصاب قرار دیا ہے۔ اسی طرح چاندی کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ تقریباً 52.5 تولے چاندی رکھنے والا صاحب نصاب کہلائے گا اسی طرح بعض علماء نے 42.5 چاندی یا اس کے مماثل رقم رکھنے والے شخص کو بھی صاحب نصاب قرار دیا ہے۔