حقوق انسانی کی متعدد خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی رپورٹ کا شاخسانہ
ینگون ۔ 28 اگست (سیاست ڈاٹ کام) فیس بک نے میانمار کے فوجی سربراہ و دیگر اعلیٰ عہدیداروں پر پیر کو امتناع عائد کردیا۔ اقوام متحدہ کے تحقیقات کاروں نے روہنگیائی مسلمانوں کے نہ صرف نسلی تطہیر بلکہ لڑکیوں کو رحم مادر میں قتل اور ان میں ’’قابل تولیدی عضو‘‘ کو نکال پھینکنے کا مجرم قرار دیا۔ واضح رہیکہ فیس بک دنیا کا سب سے بڑا ’’سماجی نیٹ ورک‘‘ ہے جو میانمار میں خبروں اور اطلاعات کو پھیلاتا ہے۔ فیس بک نے بالکل پہلی مرتبہ کسی ملٹری عہدیدار پر امتناع عائد کیا ہے اور کہا کہ یہ امتناع اپنے آپ بالکل اچھوتا ہے۔ فیس بک کی خاتون ترجمان رچیکا بدھراجا نے کہا کہ ’’ہم نے یہ اقدام میانمار کے خلاف بین الاقوامی ماہرین کی رپورٹ پر اٹھایا ہے جنہوں نے ملک میں موجود حقوق انسانی کی کئی صریح خلاف ورزیاں دیکھی ہیں‘‘۔ علاوہ ازیں فیس بک نے خودساختہ دو شعلہ بیان بدھسٹ راہبوں کو ’’بلیک لسٹ‘‘ کیا تھا ان پر مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا لیکن سب سے اہم بات یہ ہیکہ فیس بک نے ’’ملٹری‘‘ کو نشانہ بنایا (جو حقیقت پر مبنی ہے) یاد رہیکہ فوجی سربراہ آنگ ہینگ نے دو فیس بک اکاؤنٹ ہونے کی شیخی بگھارتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے پہلے اکاؤنٹ کے 1.3 ملین (13 لاکھ) اور دوسرے اکاؤنٹ کے 2.8 ملین (28 لاکھ) مداح ہیں۔ یہ پوسٹ برمی اور انگریزی زبان میں موجود تھی جس میں روہنگیاؤں کو ’’بنگالی‘‘ قرار دیا گیا تھا تاکہ انہیں بنگلہ دیش کے غیرقانونی تارکین وطن قرار دیا جاسکے اور میانمار میں بازآباد کاری سے بیدخل کیا جاسکے۔ یہ دونوں اکاؤنٹس اقوام متحدہ کے رپورٹ میں دھماکو حیثیت کے حامل ہوں گے۔ ان میں سے 5 اعلیٰ فوجی عہدیداروں کو رپورٹ کی بنیا دپر ’’بلیک لسٹ‘‘ کیا گیا۔ فیس بک کے 18 اکاؤنٹس، ایک انسٹاگرام اکاؤنٹ اور فیس بک کے 52 صفحات کو مستقلاً حذف کردیا گیا۔ اقوام متحدہ نے فیس بک پر ’’انتہائی سست اور غیرمؤثر‘‘ ہونے کا سنگین الزام لگایا۔ مزید یہ کہ اقوام متحدہ نے نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ موصوفہ بھی روہنگیاؤں پر ظلم و ستم پر چپ سادھے بیٹھی ہیں۔ فیس بک کی طرف سے بلاک کئے جانے پر حکومت میانمار کے ترجمان زاہتے نے بلاک کئے جانے کے مواد کے معیار کو جانچے جانے کے متعلق معلومات فراہم کرنے کی خواہش کی۔ فیس بک کے چیف ایگزیکیٹیو مارک زکربرگ نے میانمار میں اکثر موقعوں پر تشدد بشمول گزشتہ سال کی ’’کانگریشنل سماعت‘‘ پر خطاب کیا۔ انہوں نے فیس بک کے قانون سازوں پر زور دیا کہ وہ زیادہ تعداد میں وطنی زبان کے حامل مقررین کا تقرر کریں تاکہ صورتحال واضح رہے اور ’’نفرت انگیز‘‘ اور نفرت پر ابھارنے والے مقررین کی شناخت کی جاسکے۔