فکر آخرت ہر ایک کو ہونی چاہئے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر سمندر میں اُنگلی ڈبوکر نکالی جائے اور جو ایک قطرہ پانی اُس پر لگے گا وہ دُنیاوی زندگی ہے اور باقی سارا سمندر آخرت‘‘۔ یقیناً دنیاوی زندگی کے مقابلے ایک مسلمان کے لئے آخرت کی زندگی ہی سب کچھ ہوتی ہے، اس کو فکر آخرت ہونی چاہئے کہ ’’نہ جانے آخرت میں میرا کیا حال ہوگا‘‘۔
مرنے کے بعد ایک طویل عرصہ برزخ کا ہے، قیامت اور آخرت ہزاروں برس کے ہیں۔ جب بندۂ مؤمن کو فکر آخرت ہوگی تو پھر اس کے دل میں دنیا کی محبت کم ہوگی اور اس کے خواہشات کم ہو جائیں گے۔ اس طرح وہ اپنی آخرت بنانے سنوارنے میں لگ جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے اچھے اخلاق و کردار سے لوگوں کو خوش کرے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنا کنبہ فرمایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اولاد فرمایا ہے۔ لہذا ایک بندۂ مؤمن دوسروں کو اذیت دینے سے ڈرتا ہے کہ کہیں اللہ اور اس کے رسول ناراض نہ ہو جائیں۔ اس طرح وہ لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی کا برتاؤ کرکے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق بن جاتا ہے۔
جس نے دوسروں کو اذیت دی، مثلاً کسی کو کسی طرح کی اذیت دی، کسی کی زمین غصب کرلیا اور کسی کا مال ناحق کھالیا تو قیامت کے دن اس مال کو پہاڑ کے برابر کرکے غاصب کے سر پر رکھ دیا جائے گا۔ یعنی لوگوں کو تکلیف پہنچانے والوں کا آخرت میں بھیانک انجام ہوگا، ان کی شفاعت نہیں کی جائے گی اور وہ جنت جیسی نعمت سے محروم ہو جائیں گے۔ لہذا جن لوگوں نے امانت میں خیانت کی، کسی کا مال غصب کرلیا اور کسی کو اذیت پہنچائی، انھیں چاہئے کہ لوگوں کی امانت اور ان کا غصب کیا گیا مال واپس کریں اور جن کو اذیت پہنچائی ہو ان سے معافی طلب کریں اور پھر اللہ کے حضور معافی کے طلبگار بنیں تو یقینااللہ تعالیٰ کو عفو و درگزر فرمانے والا پائیں گے۔ (مرسلہ)