حیدرآباد 3 ڈسمبر (نمائندہ خصوصی) ڈسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ریاست تلنگانہ خصوصی طور پر شہر حیدرآباد کو سردی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ شام ہوتے ہوتے شہر کی ٹریفک میں بھی نمایاں کمی دیکھی جارہی ہے اور لوگ سڑکوں کے کنارے آگ جلاکر خود کو گرم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں۔ خوشحال اور مالدار افراد کو اپنے نرم اور آرام دہ بستروں میں رضائی اور بلانکٹس کی سہولت حاصل ہے جہاں وہ میٹھی نیند کے مزے لیتے ہیں لیکن اُن غریبوں کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا جو ٹھٹھرتی سردی میں سڑکوں پر اخبار اور کارٹونس بچھاکر سونے پر مجبور ہیں۔ لیکن سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر سونے والے ان افراد کی دلجوئی کے لئے حبیب نگر پولیس اسٹیشن کے سرکل انسپکٹر آر سنجے کمار نے جو اقدامات کئے ہیں وہ یقینا قابل تقلید و ستائش ہیں۔ اپنی معمول کی ڈیوٹی انجام دینے کے بعد سنجے کمار یونیفارم کے بجائے سادہ ڈریس میں رات کے اوقات میں فٹ پاتھوں پر سونے والے افراد کو آٹوؤں کے ذریعہ ذاکر حسین کمیونٹی ہال منتقل کرتے ہیں اور شطرنجی بچھاکر لوگوں کو وہاں سونے کے لئے پابند کیا جارہا ہے۔ اُن سے یہی کہا جارہا ہے کہ اُنھیں سردی کا پورا سیزن اسی کمیونٹی ہال میں شب بسری کرتے ہوئے گزارنا ہے۔ ذاکر حسین کمیونٹی ہال دن کے اوقات میں مصروف رہتا ہے۔ یہاں بچے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں یا پھر کوئی چھوٹا موٹا پروگرام ہو تو کمیونٹی ہال مصروف رہتا ہے
لیکن رات کے اوقات میں چونکہ عام طور پر یہ خالی رہتا ہے تو سرکل انسپکٹر کی شخصی دلچسپی کے باعث کمیونٹی ہال کے نگرانکاروں نے اُن کی نیک نیتی کا اندازہ لگاتے ہوئے شب بسری کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ بس پھر کیا تھا ! سنجے کمار نے اطراف و اکناف میں فٹ پاتھ پر سونے والے گداگروں اور دیگر افراد کو دو آٹوؤں کے ذریعہ کمیونٹی ہال منتقل کرنے کے سلسلہ کا آغاز کردیا۔ کسی بھی پولیس آفیسر کی جانب سے کیا جانے والا یہ غیر معمولی انسانیت نواز کام ہے۔ نمائندہ خصوصی نے جب رات ایک بجے وہاں کا دورہ کیا تو کم از کم 42 افراد کو وہاں موجود پایا جنھیں مختلف علاقوں کے فٹ پاتھوں سے وہاں لایا گیا تھا۔ کچھ لوگوں کے پاس بلانکٹس پہلے سے ہی موجود تھے اور کچھ لوگوں کے لئے کمیونٹی ہال میں اس کا انتظام کیا گیا تھا۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں آنے والے لوگوں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جارہا ہے اور اُنھیں اس بات کا پابند کیا جارہا ہے کہ وہ صرف ایک رات کے مہمان نہیں بلکہ سردی کا پورا سیزن اُنھیں وہیں گزارنا ہے۔ سنجے کمار اپنی اِس ’’خصوصی‘‘ ڈیوٹی کو ٹی شرٹ اور جینس پہن کر انجام دیتے ہیں۔ نمائندہ خصوصی نے جب اُن سے بات کی تو اُنھوں نے کہاکہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں کوئی بڑی خدمت انجام دے رہا ہوں لیکن ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں انسپکٹر ہونے سے پہلے ایک انسان ہوں اور انسانیت کا تقاضہ ہے کہ اُن افراد کا خیال رکھا جائے جن کے پاس سردی کے اس زمانے میں شب بسری کے لئے کوئی مناسب جگہ نہیں۔ سنجے کمار نے نمائندہ خصوصی سے مخاطب ہوکر کہاکہ آپ بھی صحافی ہیں اور رات کے ایک بجے اپنی نیند کی قربانی دے کر یہاں پہنچنا کیا انسانیت کی خدمت نہیں ہے؟ ہر انسان کو اپنے اپنے طور پر انسانیت نواز کام انجام دینے چاہئے۔
کسی پولیس انسپکٹر کی جانب سے ایسے اقدامات کرنا یقینا عدیم المثال ہے۔ پولیس کا تصور کرتے ہی آج کل ہمارے ذہنوں میں کرپشن، بے ایمانی اور استحصال کی تصور رقص کرنے لگتی ہے لیکن اِس پولیس محکمہ میں آر سنجے کمار جیسے انسپکٹر بھی ہیں جو اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی میں انسانیت کو اولین ترجیح دے رہے ہیں۔ نمائندہ خصوصی کا یہی خیال ہے کہ اگر شہر حیدرآباد کے ہر پولیس اسٹیشن میں موجود افسران اپنی معمول کی ڈیوٹی انجام دینے کے علاوہ غریبوں کی بھی دلجوئی کریں تو یقینا وہ اپنے علاقوں کے مقبول ترین پولیس افسران کے طور پر اُبھریں گے اور مجموعی طور پر پولیس کی شبیہہ کو بھی مثبت انداز میں دیکھا جائے گا۔ آج ہمارے معاشرہ میں آر سنجے کمار جیسے پولیس افسران کی ضرورت ہے جو یقینا غریبوں کے مسیحا ہیں۔