اسلام آباد /29 اگست (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کی طاقتور فوج نے آج سیاسی بحران میں دخل دیتے ہوئے دونوں احتجاجی تنظیموں سے بات چیت کی، لیکن ناراض حکومت نے اس پر ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ اس نے فوج سے ثالثی کی خواہش نہیں کی تھی۔ سربراہ فوج جنرل راحیل شریف نے پاکستان تحریک انصاف کے صدر عمران خان اور عالم دین طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک سے وزیر داخلہ چودھری نثار کی موجودگی میں بات چیت کی۔ اتفاق کیا گیا کہ حکومت کی تجاویز اور پس پردہ تبادلہ خیال جو دونوں فریقوں کے ساتھ کیا گیا ہے اور دونوں فریقوں کے درمیان ایک معاہدہ کی راہ ہموار کی گئی ہے، دونوں تسلیم کریں گے۔ جنرل شریف کی ثالثی کے چند گھنٹے بعد احتجاجیوں اور حکومت نے ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کردی کہ فوج کی ثالثی کے لئے ذمہ دار کون تھا؟۔
وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی میں آج بیان دیتے ہوئے کہا کہ نہ تو انھوں نے فوج سے ثالثی کی خواہش کی اور نہ فوج نے ہی موجودہ سیاسی بحران کی یکسوئی کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔ نواز شریف کے بیان کی تردید کرتے ہوئے فوج کے ترجمان میجر جنرل اسیم باجوا نے اپنے ٹوئٹر پر تحریر کیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف سے حکومت نے فرمائش کی تھی کہ وہ حالیہ تعطل کے خاتمہ میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سہولت فراہم کریں۔ کل 8 بجے شب جنرل کی قیامگاہ پر یہ ملاقات ہوئی تھی۔ اپنی ساکھ بچانے کی کوشش کرتے ہوئے وزیر داخلہ چودھری نثار نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم نے فوج کے کردار کی منظوری دی تھی۔ حکومت کے فیصلہ کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم نے احتجاجی فریقین سے دریافت کیا تھا کہ وہ کس پر اعتماد کرتے ہیں؟۔ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ وہ صرف فوج پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس پر حکومت نے فوج کو اس کارروائی کی ذمہ داری دستور اور قانون کے دائرۂ کار میں سپرد کردی۔
متضاد بیانات کے دوران برسر اقتدار پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور احتجاجی فریقین عمران خان زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف اور طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک مذاکرات کی میز پر واپس آئے اور یہاں بات چیت ہوئی، تاہم بحران کی یکسوئی میں بات چیت کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔ شریف کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جو احتجاجی قائدین کی ایک انٹر ویو میں فوج سے بحران کی یکسوئی کی درخواست کے بارے میں دیا گیا تھا، پاکستان عوامی تحریک کے صدر عالم دین طاہر القادری نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے برہمی کے عالم میں کہا ’’میں واضح طورپر کہہ رہا ہوں کہ فوج سے مداخلت کی درخواست وزیر اعظم نے کی تھی۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے ریکارڈ کیا جاسکتا ہے کہ ہم نے فوج سے مداخلت کی خواہش کبھی نہیں کی تھی‘‘۔ عمران خان نے بھی وزیر اعظم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اور طاہر القادری نے فوج سے کبھی مداخلت کی خواہش نہیں کی۔ انھوں نے کہا کہ میں اپنے بیان سے انحراف نہیں کروں گا کہ ہر قیمت پر میں وزیر اعظم کے استعفی کا خواہاں ہوں۔ قبل ازیں قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ چودھری نثار نے اظہار مایوسی کیا تھا کہ احتجاجی گروپس کسی اور محکمہ کے پیش کردہ حل کو قبول کرنے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک دونوں اپنے مطالبات پر اٹل ہیں، خاص طورپر نواز شریف کے استعفی کے خواہاں ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ وہ حکومت کی کوششوں کو جو ان کو خریدنے کے لئے کی جا رہی ہیں، کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
عمران خان نے کہا کہ میں نے نواز کا گلا پکڑ لیا ہے اور اسے ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ وہ گزشتہ سال کی رائے دہی میں انتخابی دھاندلیوں کے الزام کی بنا پر نواز شریف کی برطرفی چاہتے تھے، جب کہ طاہر القادری چاہتے تھے کہ ملک میں ’’انقلاب‘‘ لائیں۔ ذرائع کے بموجب فوج کی ثالثی سے کی ہوئی کوشش عمران خان کے اندیشوں کا جو دھاندلیوں کے بارے میں تھے اور قادری کے بنیادی مطالبہ کی جو وزیر اعظم، ان کے بھائی پاکستانی پنجاب کے چیف منسٹر شہباز شریف اور لاہور کے دیگر شہریوں کے خلاف پہلے ہی سے دائر کردہ مقدمہ میں انسداد دہشت گردی قوانین کا اضافہ بھی کریں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس سیاسی جنگ میں آخر کار نواز شریف فاتح رہیں گے، لیکن اتنے کمزور ہو جائیں گے کہ خارجہ پالیسی اور صیانتی پالیسی پر فوج کی گرفت کو چیلنج نہیں کرسکیں گے۔ دونوں فریقین کے درمیان الزام تراشی کا سلسلہ امکان ہے کہ فوج کی سمجھوتہ کی کوششوں کو متاثر کرے، کیونکہ حکومت اور دونوں احتجاج کرنے والے قائدین اپنے موقف مزید سخت بنا چکے ہیں، جس کی وجہ سے سودے بازی مشکل ہو گئی ہے۔ ایک دن قبل نواز شریف اپنے خلاف قتل کے مقدمہ کا سامنا کرنے سے اتفاق کرچکے تھے اور لاہور پولیس نے ان کے، ان کے بھائی اور کلیدی کابینی وزراء اور سینئر سرکاری عہدہ داروں کے طاہر القادری کے حامیوں کے ماڈل ٹاؤن علاقے میں قتل میں ملوث ہونے کی شکایت پر ایک ایف آئی آر درج کرلی ہے۔