فوجی نقل و حرکت 2012 پر تازہ تنازعہ، مشیر قومی سلامتی کی تردید

پٹنہ ؍ نئی دہلی 21 فروری (سیاست ڈاٹ کام) دہلی کے قریب 2012 ء میں 2 فوجی یونٹوں کی نقل و حرکت پر ایک تازہ تنازعہ پیدا ہوگیا ہے جبکہ اُس دور کے ٹی جی ایم او لیفٹننٹ جنرل اے کے چودھری نے کہاکہ ممکن ہے کہ اِس مسئلہ پر حکومت اور فوج کے درمیان ’’عدم اعتماد‘‘ رہا ہو۔ چودھری نے ایک انٹرویو دیا تھا جس کے اقتباسات کے حوالہ سے اُنھوں نے کہاکہ اُس دور کے معتمد دفاع ششی کانت شرما نے اُن سے کہا تھا کہ فوجیوں کو واپس بھجوادیا جائے کیونکہ حکومت اِس سلسلہ میں اعلیٰ ترین سطح پر ’’فکرمند‘‘ ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ غلط فہمی پیدا ہوگئی تھی یا پھر فرضی اختلافات پیدا ہوئے تھے یا پھر عدم اعتماد موجود تھا۔ اِس بیان کے بارے میں ردعمل دریافت کرنے پر مشیر قومی سلامتی شیوشنکر مینن نے کہاکہ فوج اور حکومت کے درمیان کوئی عدم اعتماد نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ اُنھیں کوئی عدم اعتماد نظر نہیں آتا۔ وہ کسی ایسی بات پر کیسے تبصرہ کرسکتے ہیں جو اُنھیں نظر نہیں آیت۔

اُنھوں نے کہاکہ چونکہ وہ ایک سیویلین ہیں اور فوج کے ساتھ روزانہ قریبی تعاون سے کام کرتے ہیں اِس لئے اُنھیں عدم اعتماد نظر نہیں آتا۔ فوجیوں کی نقل و حرکت ’’حسب معمول‘‘ مشق تھی اور حکومت نے فوری اِس مسئلہ کو ’’سمجھ لیا‘‘ تھا۔ جبکہ اِس کے بارے میں وضاحت پیش کی گئی تھی۔ اخباری نمائندوں نے چودھری سے سوال کیاکہ کیا حکومت فوجی نقل و حرکت کی وجہ سے اُلجھن میں مبتلا تھی، چودھری نے فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ یہ حکومت سے ہی پوچھئے۔ مزید زور دینے پر کہ کیا اِس مسئلہ پر حکومت نے خطرہ کی گھنٹیاں بجنے لگی تھیں۔ اُنھوں نے کہاکہ وہ یہ نہیں کہیں گے کہ حکومت نے خطرہ محسوس کیا تھا یا نہیں محسوس کیا تھا۔ اُنھوں نے کہاکہ حکومت اور فوجی ہیڈکوارٹرس کے درمیان روزانہ تبادلہ خیال ہوا کرتا تھا اور اگر اُس وقت کوئی اُلجھن پیدا بھی ہوئی تھی تو اُنھیں (حکومت کو) ایسے اجلاسوں میں اِس کی وضاحت طلب کرلینی چاہئے تھی۔ اُنھوں نے کہاکہ حکومت تھوڑی سی بھی پُرجوش نہیں ہوئی تھی کیونکہ یہ ضروری نہیں تھا۔ اُنھوں نے کہاکہ وہ صرف یہ سوچ رہے تھے کہ اِس نوعیت کی معلومات کے بارے میں حکومت نے سوچ لیا تھا۔ اگر ایسا تھا تو اُنھیں ہم سے ٹیلیفون پر ربط پیدا کرنا اور وضاحت طلب کرنا چاہئے تھا۔ یہ غلط فہمی اُسی وقت دور ہوجاتی جب شرما نے اُن سے وضاحت طلب کی کیونکہ حکومت کو اِس کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی تو اُنھوں نے کہا تھا کہ یہ حسب معمول مشق ہے اور اِس کے بارے میں آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور اُنھوں نے ہماری بات سمجھ لی تھی۔

دریں اثناء بی جے پی نے آج سابق فوجی عہدیدار کے اس بیان پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے جس میں سابق ڈی جی ایم او لیفٹننٹ جنرل اے کے چودھری نے کہا ہے کہ 2012ء میں فوجی یونٹس کی دہلی کے قریب نقل و حرکت کی وجہ سے حکومت اور فوج کے درمیان بداعتمادی پائی جاتی ہے۔سینئر پارٹی لیڈر روی شنکر پرساد نے آج کہا کہ حکومت کی بداعتمادی کی وجہ سے تمام شعبوں میں نقصانات ہوئے ہیں مگر فوجیوں پر بداعتمادی کی خبر کسی بھی اعتبار سے ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج اور حکومت کے درمیان بداعتمادی کا معاملہ انتہائی تشویشناک امر ہے۔ فوج ملک کی حفاظت کرتی ہے اور ملک کے شہریوں کو ان کی سلامتی کی ضمانت دیتی ہے تاہم اگر اس طرح کی خبریں آتی ہیں تو یہ یقینا ایک تشویشناک مسئلہ ہے۔ روی شنکر پرساد نے پارلیمنٹ کے باہر ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے یہ باتیں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس معاملہ کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ہم برسراقتدار آئیں تو یقینا ہم اسے ٹھیک کرلیں گے۔ لیفٹننٹ جنرل اے کے چودھری کا تبصرہ ایک نئے تنازعہ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے جو انہوں نے 2012ء میں دہلی کے قریب فوجی یونٹ کی نقل و حرکت کے حوالے سے دیا ہے۔

انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ممکن ہے کہ اس معاملہ میں کچھ غلط فہمی ہوئی ہو یا اختلافات رہے ہوں یا پھر بداعتمادی بھی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت کے محکمہ دفاع کے سکریٹری ششی کانت شرما نے کہا تھا کہ حکومت میں اعلیٰ سطح پر تشویش پائی جاتی ہے لہذا وہ فوجیوں کو واپس بھیج دیں۔ جبکہ دوسری طرف قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر مینن نے اس ادعاء کو مسترد کردیا کہ حکومت اور فوج کے درمیان کسی قسم کی بداعتمادی پائی جاتی ہے۔ دریں اثناء بی جے پی ترجمان پرکاش جاوڈیکر نے کہا کہ بی جے پی کو اس بات پر فخر ہے کہ ہندوستانی فوجیوں کو سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہماری فوج سماجی اقدار اور اس کے تحفظ کی ضامن ہے اس لئے ہم ایسی خبر پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہیں گے جو ابھی ابھی سبکدوش ہوئے ہوں۔ ہمیں ہماری مسلح افواج پر مکمل بھروسہ ہے۔ جاوڈیکر نے کہا کہ وہ پارلیمانی کمیٹی برائے دفاع کے رکن رہ چکے ہیں اور وہ گذشتہ چارسال سے مسلح افواج کی حقیقی سوچ اور فکر کو قریب سے دیکھے ہیں لہذا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کی خبروں کو سنسنی خیز بنانے سے گریز کیا جانا چاہیئے۔ میں اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ ہماری افواج نے کبھی سیاست میں دلچسپی لی ہو۔