اسرائیلی مظالم پر عالمی اداروں کی خاموشی افسوسناک، ہندوستان سے فلسطینی عوام کو امیدیں، فلسطینی پارلیمنٹ کے رکن عبداللہ عبداللہ سے بات چیت
… رشید الدین …
حیدرآباد۔/29جون۔ جدوجہد آزادیٔ فلسطین کے سینئر رہنما عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کی بازیابی کے سلسلہ میں تمام عرب اور اسلامی ممالک کو اپنے اتحاد کا ثبوت دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ صرف اتحاد کے ذریعہ ہی اسرائیلی جارحیت اور بربریت کا مقابلہ کرتے ہوئے اُسے فلسطینی علاقے پر غاصبانہ قبضہ سے دستبردار ہونے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ ہز ایکسلینسی عبداللہ عبداللہ اپنے حالیہ دورہ حیدرآباد کے موقع پر ’’سیاست ‘‘ سے خصوصی بات چیت کررہے تھے۔ عبداللہ عبداللہ فلسطینی پارلیمنٹ کے رکن اور تنظیم الفتح کے ڈپٹی ہائی کمشنر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ اُن کا شمار فلسطینی جدوجہد آزادی کے سینئر قائدین میں ہوتا ہے، وہ 1969ء سے تنظیم آزادی فلسطین (PLO) سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں پی ایل او کے نمائندہ کی حیثیت سے فلسطینیوں کے موقف کو دنیا کے سامنے رکھا۔ وہ پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات کے قریبی اور بااعتماد رفقاء میں شمار کئے جاتے ہیں۔1972ء تا 1990ء وہ کیناڈا میں پی ایل او نمائندہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے جبکہ 1990ء تا 2003ء وہ یونان میں فلسطین کے سفیر رہے۔ انہوں نے 2003-05 نائب وزیر خارجہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور 2006ء سے فلسطینی قانون ساز کونسل کے رکن ہیں۔ وہ قانون ساز ادارہ کی سیاسی کمیٹی کے صدرنشین بھی ہیں۔ کئی قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کے ذریعہ عبداللہ عبداللہ نے فلسطینی عوام کی جدوجہد اور ان کے جائز مطالبات کی ترجمانی کی۔ اسرائیلی حملوںکے ذریعہ فلسطینی عوام کو آزادی کی جدوجہد سے روکنے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ علاقہ میں قیام امن کیلئے ضروری ہے کہ اسرائیل اپنی جارحیت کا سلسلہ بند کرے، اُسے فلسطینی علاقوں پر حملوں اور بمباری کا سلسلہ بند کرنا ہوگا، اُسی وقت فلسطینی اور حماس اپنی مزاحمت کو ترک کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک اسرائیلی حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا فلسطینی عوام کو بھی اپنے دِفاع کا اخلاقی حق حاصل رہے گا۔ عبداللہ عبداللہ نے عالمی تنظیموں اور انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والے اداروں کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں معمولی واقعات پر عالمی ادارے متحرک ہوجاتے ہیں لیکن گذشتہ کئی دہوں سے فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت پر یہ ادارے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ فلسطینی عوام کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی اور بیت المقدس کے ساتھ آزاد مملکت فلسطین کا قیام حقیقت میں تبدیل ہوگا۔ عبداللہ عبداللہ نے الزام عائد کیا کہ اسرائیلی حکام غزہ میں ناکہ بندیوں اور فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے ذریعہ جنگ بندی کی صریح خلاف ورزی کررہے ہیں، اس کا مقصد غزہ اور مغربی کنارے کو جدا کرنا ہے۔ عبداللہ عبداللہ نے بتایا کہ آزادیٔ فلسطین کی جدوجہد کو فتح اور حماس کے اتحاد کے ذریعہ ایک نئی طاقت ملی ہے اور حالیہ عرصہ میں ان دونوں تنظیموں کو قریب لانے کی کوششوں کے نتائج ثمر آور ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حماس فلسطینی سیاسی ڈھانچہ کا ایک حصہ ہے اور اُسے کمزور کرنا فلسطینی سیاسی ڈھانچہ کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ الفتح تنظیم چاہتی ہے کہ وہ سیاسی نظام اور دیگر اُمور میں حماس کے ساتھ تال میل برقرار کھے۔ صدر محمود عباس نے اس سلسلہ میں قومی مذاکرات کے ذریعہ مساعی کا آغاز کیا ہے۔ عبداللہ عبداللہ نے اقوام متحدہ، یوروپین یونین اور سیکورٹی کونسل کی جانب سے اسرائیلی حملوں اور مظالم پر خاموشی کو بدبختانہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی کارروائیاں علاقے میں امن اور انسانیت کے تحفظ کیلئے خطرہ ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ عالمی ادارے معصوم فلسطینی شہریوں بالخصوص معصوم بچوں کی ہلاکتوں سے واقف نہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 2002ء میں جینین کیمپ کے محاصرہ کے دوران تین ہفتوں تک فلسطینیوں نے اسرائیل کا مقابلہ کیا تھا۔ اسی طرح 1982ء میں اسرائیلی فوج کے خلاف پی ایل او کے کارکن 88دن تک برسرِ پیکار رہے۔ عبداللہ عبداللہ نے اقوام متحدہ، یوروپین یونین اور عرب لیگ کی مساعی کی مداخلت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے کیلئے ان اداروں کو سفارتی سطح پر اقدامات کرنے چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جیلوں میں تقریباً 5300سے زائد فلسطینی کسی الزامات کے بغیر قید ہیں اور وہ ایک ماہ سے زائد عرصہ سے مسلسل بھوک ہڑتال کررہے ہیں۔ فلسطینی حکام نے بارہا مطالبہ کیا کہ انہیں عدالت میں پیش کرتے ہوئے الزامات ثابت کئے جائیں لیکن اسرائیلی حکام انہیں عدالت میں پیش کرنے تیار نہیں۔ عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ اب وقت آچکا ہے کہ عالمی ادارے اور دنیا بھر کے امن اور انصاف پسند عوام اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کریں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک منصوبہ بند طریقہ سے اسرائیل شہروں کے نام تبدیل کرتے ہوئے انہیں یہودی نام دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم کو روکنے اور ان کے جائز حقوق کی تائید کیلئے ہندوستان سے پیشرفت کی خواہش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان ناوابستہ تحریک کے بانیوں میں ہے اس اعتبار سے اس کے رول کی اہمیت زیادہ ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ہندوستان کی نئی حکومت فلسطینی کاز کی مکمل تائید کرے گی اور ہندوستان کی روایتی پالیسی کو برقرار رکھا جائے گا۔ عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ ہندوستان اور فلسطین کے تعلقات انتہائی مستحکم ہیں اور ہندوستان میں حکومت کی تبدیلی سے وہ توقع کرتے ہیں کہ تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مرکز کی نریندر مودی حکومت ہندوستان کی موافق فلسطینی روایتی پالیسی کو جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ مصیبت کی ہر گھڑی میں ہندوستان نے فلسطینی کاز کی تائیدکی اور ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا رہا۔ انہوں نے بتایا کہ صدر فلسطین محمود عباس نے وزیر اعظم نریندر مودی کو وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد مبارکباد پیش کرتے ہوئے ہندوستان اور فلسطین کے تعلقات کی یاد دلائی تھی۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ ہندوستان کی پالیسی بدستور فلسطینیوں کے حق میں جاری رہے گی اور موجودہ حکومت نے بھی اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی جائز جدوجہد کے ساتھ ہے۔