فقہ افضل ترین علم ہے

حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

قرآن مجید مکمل دستور حیات ہونے کے باوجود اس میں انسانی زندگی سے متعلق تمام جزئیات کا تفصیلی احاطہ نہیں کیا گیا۔ قرآن مجید میں بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی زندگی سے متعلق مختلف جزئیات کی تشریح فرمائی، اس طرح احادیث نبویﷺ میں قرآنی کلیات کی روشنی میں حیات انسانی کے مختلف شعبوں کے تعلق سے رہنمائی کی گئی ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم شریعت اسلامی کے دو بنیادی ماخذ ہیں۔ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کیا گیا، لیکن آئندہ رونما ہونے والے جدید مسائل و حالات کے سلسلے میں مکمل رہنمائی ممکن نہ تھی۔ احادیث نبوی میں قرآنی کلیات کی توضیح کے ساتھ ایسے کامل ضوابط میں غور و فکر کرکے جدید مسائل اور احکام کا استخراج ہر ایک کے بس کی بات نہیں تھی، اسی لئے خداوند قدوس نے فقہائے عظام کی جماعت کو کھڑا کیا۔
فقہ دراصل رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوام اور اسلام کی ابدیت کے ثبوت کا غیبی انتظام ہے، جس کے بغیر قیامت تک آنے والے انسانوں کی رہنمائی کا دعویٰ نامکمل رہ جاتا ہے۔ صحابۂ کرام اور ائمۂ مجتہدین نے تدوین فقہ کے ذریعہ امت پر ایسا احسانِ عظیم فرمایا کہ امت کسی طرح اس کا بدلہ نہیں چکا سکتی۔

لغت میں فقہ کے معنی فہم و سمجھداری کے آتے ہیں اور اصطلاح شریعت میں فقہ احکام شرعیہ علمیہ کو ان کے تفصیلی دلائل کے ساتھ جاننے کا نام ہے (سال نامہ المؤمنات، صفحہ۱۶) حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فقہ کی تعریف یہ بیان فرمائی: ’’فقہ نفس کو فائدہ اور نقصان پہنچانے والے امور کی جانکاری کا نام ہے‘‘۔ حضرت امام اعظم نے فقہ کو ظاہری اعمال تک محدود نہیں رکھا، بلکہ جائز و ناجائز امور کی معرفت کو فقہ کہا ہے۔
علم فقہ افضل ترین علوم میں سے ہے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ جس کسی کے ساتھ بھلائی چاہتا ہے، اس کو دین کا فقیہ بناتا ہے۔ میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ دینے والا ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)
ارشاد ربانی: ’’لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم‘‘ اور ’’من یوت الحکمۃ‘‘ کی تفسیر میں بعض مفسرین نے حکمت سے علم فقہ مراد لیا ہے۔ بیہقی اور دارقطنی نے روایت کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہرچیز کے واسطے ایک کھمبا ہوتا ہے اور اس دین کا کھمبا فقہ ہے‘‘۔ ان دونوں نے یہ بھی روایت کی ہے کہ ’’ایک فقیہ ہزار عابد سے زیادہ شیطان پر سخت و گراں ہوتا ہے، کیونکہ عابد سے کسی کو نفع نہیں پہنچتا اور فقیہ لوگوں کو فقہ کی تعلیم دیتا ہے اور حرام و حلال کے مسائل لوگوں کو بتاتا ہے۔ طبرانی نے معجم کبیر میں روایت کی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’فقہ کی مجلس میں شریک ہونا ساٹھ برس کی عبادت سے بہتر ہے‘‘۔

فقہ کی یہ غیر معمولی فضیلت اس لئے ہے کہ وہ کتاب و سنت کا نچوڑ ہے۔ بغیر فقہ کتاب و سنت کے ظاہری معنی عمل کے لئے کافی نہیں، جس کا اعتراف محدثین کبار نے بھی کیا ہے۔ حضرت وکیع جو امام احمد وغیرہ اکابر محدثین کے استاد اور صحاح ستہ میں ان کی روایتیں موجود ہیں، ان کی مجلس میں ایک حدیث پیش ہوئی، جس کا مضمون دقیق تھا۔ حضرت وکیع کھڑے ہو گئے اور ٹھنڈی سانس لے کر کہا: ’’اب ندامت سے کیا فائدہ، وہ شخص (یعنی امام ابوحنیفہ) کہاں ہیں؟۔ اے قوم! تم حدیثیں طلب کرتے ہو اور ان کے معانی نہیں طلب کرتے، اس میں تمہاری عمر اور دین ضائع ہو جائے گا۔ مجھے آرزو ہے کہ کاش ابوحنیفہ کی فقہ کا دسواں حصہ مجھ میں ہوتا‘‘۔ (مناقب الامام للکردی، بحوالہ انوار نظامیہ)
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے علی بن مدینی سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ حدیث کے معانی کا فہم نصف علم ہے اور رجال کی معرفت نصف علم‘‘ (تہذیب الکمال) حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’حدیث کی معرفت و سمجھ میرے پاس اس ذکر سے زیادہ محبوب ہے‘‘۔ (مقدمہ تاتارخانیہ للقاضی خاں)

ائمہ اربعہ کے طریقۂ استنباط کی اس مختصر سی تفصیل سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ائمہ نے مسائل کے استخراج میں کتاب و سنت ہی کو بنیاد بنایا ہے۔ کسی مسئلہ میں کتاب و سنت کا صریح حکم نہ ملتا تو وہ اجماعِ صحابہ کو اولین ترجیح دیا کرتے تھے۔ اس میں بھی کوئی حکم نہ ملے تو کتاب و سنت کے اصول کلیات کی روشنی میں قیاس کرکے نئے مسائل کا حل نکالتے تھے۔ مخالفین کی جانب سے جن باتوں کو لے کر فقہ کے خلاف سب سے زیادہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، وہ اجماع اور قیاس ہے۔ اجماع اور قیاس کے بارے میں ان حضرات کو یہ غلط فہمی ہے کہ یہ قرآن و حدیث سے ہٹ کر دو مستقل مصادر ہیں، حالانکہ وہ دونوں قرآن و حدیث سے ہی نکلے ہوئے ہیں۔ شمس الائمہ سرخسی کہتے ہیں کہ ’’شریعت کی تین حجتیں ہیں، کتاب، سنت اور اجماع، جب کہ چوتھی بنیاد قیاس ہے، جو ان تینوں سے نکلی ہوئی ہے۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان اصولوں کی بنیاد صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل و سماع ہے‘‘۔ (اصول السرخسی)
ان حقائق اور دلائل کے باوجود اگر کوئی شخص فقہ کے سلسلے میں عدم اعتماد کا شکار ہوا تو اسے عناد کے سواء کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی سمجھ، مسائل فقہ کو عام کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)