فضیلتِ حدیث

علامہ سید احمد سعید کاظمی
حدیث کی فضیلت کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ اس کے قائل صاحب لولاک باعث تخلیق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، جن کے فضائل و مکارم اور محامد و مدائح کا احصار کسی بشر کے لئے ممکن نہیں۔ حضرت امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ’’جو شخص رضائے الہی کا متمنی ہو، اس کے لئے میرے علم میں علم حدیث سے افضل کوئی علم نہیں۔ حدیث وہ علم ہے، جس کی طرف لوگ اپنے کھانے پینے اور شب و روز کی تمام ضروریات میں محتاج ہیں‘‘۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’خوشحال کرے اللہ تعالی اس آدمی کو، جس نے میری بات سنی اور اس کو یاد رکھا اور دل کی گہرائیوں میں اسے محفوظ کرکے دوسرے تک پہنچا دیا‘‘۔ کیونکہ اکثر حامل فقہ ایسے شخص کی طرف فقہ لے جانے والا ہوتا ہے، جو اس سے زیادہ فقیہ ہے۔ اسی مضمون کی حدیثیں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے بروایت ابی داؤد، ترمذی، دینار، ابن حبان مروی ہیں۔

مسلمانوں میں احادیث پھیلانا سنن دین کی اشاعت اور جماعت مسلمین کی عظیم خیر خواہی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کام انبیاء کرام علیہم السلام کے معمولات سے ہے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث روایت کرنے والوں کو اپنا خلیفہ قرار دیا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے طبرانی نے اوسط میں روایت کی ہے۔ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تدریب الراوی میں فرمایا کہ علم حدیث اشرف العلوم ہے، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ کے ساتھ تعلق اور رابطہ کا موجب ہے۔ اس علم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال سے بحث کی جاتی ہے۔ اس کے اشرف العلوم ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ باقی علوم شرعیہ کے لئے اس کی طرف رجوع ہونے کی ضرورت واقع ہوتی ہے۔ علم فقہ میں اس کی احتیاج ظاہر ہے اور علم تفسیر میں حدیث کی ضرورت اس لئے ہے کہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل پر نظر نہ کی جائے، کلام الہی سے مراد خداوندی ظاہر نہیں ہوتی، یعنی قرآن کریم کا علم حدیث کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا، معنی کو بغیر جانے عمل ممکن نہیں۔ اس لئے تفسیر قرآن اور عمل بالقرآن دونوں کا مدار حدیث پر ہے۔ موقوف علیہ موقوف پر مقدم ہوتا ہے، لہذا علم حدیث علم تفسیر پر مقدم اور اس سے اشرف ہے۔
شرافت و فضیلت علم حدیث کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ہر علم کی فضیلت اس کے موضوع کی فضیلت کے مطابق ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ علم حدیث کا موضوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم افضل الخلق ہیں، لہذا علم حدیث بھی افضل العلوم قرار پائے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید ایسی جامع کتاب ہے، جس میں عقائد و اعمال، عبادات و اخلاق، حلت و حرمت کے احکام اور بنی نوع انسان کی تمام جسمانی اور روحانی ضرورتوں کے پورا ہونے اور دونوں جہان کی فوز و فلاح حاصل کرنے کے اصول موجود ہیں، لیکن یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ ان اصولوں کی ایسی تشریحات جو پیش آنے والی ضروریات کے تمام جزئیات پر منطبق ہو جائیں، قرآن مجید میں مذکور نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب تک وہ تشریحات سامنے نہ آجائیں، اس وقت تک قرآنی اصول کے مطابق عمل نہیں ہوسکتا اور کوئی شخص اپنی زندگی کو اصول قرآنی کے مطابق بسر نہیں کرسکتا۔ معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کو بحیثیت مسلمان ہونے کے حدیث کی اشد ضرورت ہے۔

اگر اس مقام پر یہ شبہ وارد کیا جائے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید کو کتاب مفصل قرار دیا ہے اور اس کے حق میں ’’تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ‘‘ فرمایا ہے تو ایسی صورت میں یہ کہنا کہ اصول قرآنیہ کے لئے قرآن کے علاوہ کسی تشریح کی ضرورت ہے، کیونکہ صحیح ہوگا؟ تو ہم جواباً عرض کریں گے کہ قرآن مجید میں جہاں تبیان و تفصیل اور بیان وغیرہ کے الفاظ وارد ہیں، ان کا یہ مطلب نہیں کہ اصول قرآن کی وہ تمام تشریحات قرآن مجید میں بیان کردی گئی ہیں، جو ہر شخص کے لئے قیامت تک پیش آنے والے تمام واقعات کی جزئیات کو حاوی ہوں۔ کیونکہ یہ مطلب قرآن مجید کی روشنی میں غلط ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ’’اقیموا الصلوۃ واٰتواالزکوۃ‘‘ ارشاد فرمایا اور نماز و زکوۃ کے بنیادی اصول بھی قرآن مجید ہی میں بیان فرمائے، لیکن اصولوں کی تشریحات مثلاً ارکان صلوۃ کی ترتیب، تعداد رکعت، مقادیر زکوۃ اور ان کے شرائط و دیگر احکام کی تفصیل قرآن مجید میں کہیں مذکور نہیں۔ اب اگر ’’تَفْصِیْلًا لِّکُلِّ شَیْئٍ‘‘ اور ’’تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ‘‘ کا یہی مطلب لیا جائے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ہی تمام مسائل جزئیہ کی تفصیلات و تشریحات کھلے طورپر بیان فرمادی ہیں تو یہ بات بالکل خلاف واقع ہوگی، جو کذب محض ہے اور اللہ تعالی اس سے قطعاً پاک ہے۔ معلوم ہوا کہ تفصیل و تبیان سے احکام جزئیہ کی لفظی تفصیل و تشریح مراد نہیں، بلکہ وہ معنی تشریح مراد ہے جو الفاظ قرآن کے نزول کے ساتھ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے نور نبوت کی روشنی میں عطا فرمائی۔ قرآن مجید کی آیات مخاطب کے لئے اس قدر روشن، مفصل اور واضح ہیں، جس کے بارے میں کسی قسم کا اشتباہ پیدا نہیں ہوتا اور جس کو اس کلام پاک کا مخاطب کہا گیا ہے، وہ مکمل شرح و بسط کے ساتھ اسے سمجھتا ہے۔

واضح رہے کہ قرآن کریم کا بالواسطہ مخاطب ہر وہ شخص ہے، جو احکام خداوندی کا مکلف ہے اور بلاواسطہ اس کے مخاطب صرف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جس مخاطب کے لئے ہم نے قرآن مجید کو ’’تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ‘‘ مانا ہے، اس سے ہماری مراد مخاطب بلاواسطہ ہے۔ ہمارے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں جو اصول بیان فرمائے ہیں،

وہ سب بلکہ جملہ آیات قرآنیہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں بیان و تبیان اور تفصیل کا حکم رکھتی ہیں اور قرآن مجید کا ایک لفظ بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام پر اس طرح نازل نہیں ہوا کہ جس کو سن کر مراد الہی کے سمجھنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قسم کا کوئی اشتباہ واقع ہوا ہو۔ یہ نہیں کہ ہر شخص قرآن سن کو مراد الہی کی تفصیلات و تشریحات کو بخوبی سمجھ لے، بلکہ دوسروں کے لئے ان تشریحات کا سمجھانا اور کتاب اللہ کی تعلیم دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب ہے۔ اسی لئے ارشاد فرمایا ’’ایک رسول بھیجا جو ان کو (قرآن کی) آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘ (آل عمران۔۱۶۴) تلاوت آیات کے بعد کتاب کے معنی صرف یہ ہیں کہ اصول قرآنیہ اور آیات کتاب کی تفصیل و تشریح حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خاص ہے۔ نیز فرمایا ’’اور ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا، تاکہ آپ بیان کردیں، لوگوں کے لئے اس چیز کو جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے‘‘ (سورۃ النحل۔۴۴) لہذا ثابت ہوا کہ قرآن مجید کا ’’تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ‘‘ اور کتاب مفصل ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات سے ہے۔
یہ امر بھی قابل لحاظ ہے کہ قرآن مجید کا دوسروں کے لئے تبیان و تفصیل نہ ہونا اس لئے نہیں کہ قرآن ناقص ہے، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ لوگ اس نور نبوت سے محروم ہیں، جس کا ہونا ’’تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ‘‘ کے لئے ضروری ہے۔ خلاصہ یہ کہ آیات قرآنی کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تعلیم کتاب اور ’’مانُزِّل اِلیھم‘‘ کا بیان وظائف نبوت سے ہے اور اسی بیان و تعلیم اور تشریح کو سنت اور حدیث سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کی ضرورت اس قدر اہم ہے کہ اس کے بغیر قرآن پاک کا سمجھنا ممکن ہے اور نہ اس پر عمل کرنا۔ (اقتباس)