مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
کرۂ ارض پر فساد و بگاڑ کااہم سبب منعم حقیقی کی ناشکری و نافرمانی ہے، اس کے احکامات سے کھلی بغاوت نافرمانی ہے۔ ارشاد باری ہے: ’’خشکی اور تری میں انسانوں کی بداعمالیوں کی وجہ فسادوبگاڑ پھیل رہا ہے اسلئے کہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ ان کو چکھا دے، ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں‘‘(الروم؍۴۱) ’’اور جو کچھ مصیبتیں تمہیں پہنچتی ہیں وہ دراصل تمہارے اپنے ہاتھوں کے اعمال کا بدلہ ہے‘‘۔(الشوریٰ؍۳۰)
ایمان اور اعمال صالحہ اس دنیا کو امن و آمان کا گہوارہ بناتے ہیں، انفرادی طور پر ایک انسان کی نیکی و پارسائی اور بحیثیت مجموعی پورے معاشرہ میں نیکی و پرہیزگاری ، صلاح و تقویٰ کی پاسداری بہتروپرسکون معاشرہ کی ضمانت دیتی ہے۔ ایمانیات و اعمال صالحہ کے اچھے اثرات ایسے یقینی ہیں کہ اس کا انکار ممکن نہیں، اسی طرح ظلم کی روش خواہ وہ اپنے خالق و مالک کے ساتھ اختیار کی جائے کہ خلق خدا کیساتھ یعنی الٰہ واحد کا انکار یا اس کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کیا جائے یا خلق خدا کی حق تلفی کرکے اس پر ظلم ڈھایا جائے، اسکے مضر اثرات سے ماحول مامون و محفوظ نہیں رہ سکتا، جس طرح سورج کا طلوع و غروب، روشنی و تاریکی بکھیرتا ہے اس سے کہیں زیادہ ایمان و اعمال صالحہ اور خصائل حمیدہ، اسی طرح کفروشرک اور بداعمالیاں و رزائل اخلاق ہردو اِس دنیا میں اپنے اثرات دکھاتے ہیں، اعمال صالحہ نوروروشنی ہیںاور بداعمالیاں اندھیری و تاریکی۔ ایمان اور اعمال صالحہ سے قلب و روح کی دنیا بہار آفریں بن جاتی ہے اور ایسے انسان سماج میں بکثرت ہوتے ہیں تو وہاں اللہ کے گھر آباد ہوتے ہیں، سارے ماحول میں عبادات و ریاضات اور احکام الٰہیہ کی پابندی کا نور جگمگانے لگتاہے، عدل و انصاف، رواداری، پیارومحبت، امانت و دیانت، اخلاص و رضاجوئی کے انوار بکھرنے لگتے ہیں، یہ ایسے گلہائے عطربیز وخوش رنگ ہیں کہ ماحول کو خیروبھلائی کی روح پرور خوشبو سے معطر رکھتے ہیں
اور اِن اعمال صالحہ کی خوش رنگی ایمانی کیفیات کو نوروسرور بخشتی ہے، اسکی وجہ معاشرہ سکینت و طمانیت، راحت و رحمت کا مظہر بنتا ہے۔ اسکے برعکس کفروشرک کی تاریکی اور اعمال بد کی گندگی بھی ایک ایسی حقیقت ہے جو اپنے اندر حد درجہ عفونت رکھتی ہے، جس کے تعفن کا ایمان و اعمال صالحہ پر کاربند نیک و صالح افراد تحمل نہیں کرسکتے۔ بندگانِ خدا کی حق تلفی، ظلم و زیادتی، نارواتعصب و دشمنی، قتل و غارت گری و خوںریزی ان سب کا رشتہ بے دینی سے جڑا ہوا ہے، جسکا جتنا تعلق اللہ سے کٹے گا اتنا ہی اسکا تعلق ان بداعمالیوں سے جڑے گا، نتیجہ میںمعاشرہ کا سکون درہم برہم ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہر دو پر امتحان کی غرض سے پردہ ڈال رکھا ہے، اعمال صالحہ کے نوروروشنی اور اسکی خوشبو چھپی ہوئی ہے، اسی طرح بداعمالیوں کی عفونت بھی ڈھکی ہوئی ہے، روزِحشر ہی ان سے پردہ اٹھے گا اور ان کی حقیقتیں منکشف ہونگی، امتحان کی کامیابی اس میں ہے کہ ایک انسان اس دنیا میں معرفتِ الٰہی کے نور سے اس حقیقت تک پہنچے،اس دنیا میں امن و سکون کا راز اِسی میں مضمر ہے۔
اس وقت دنیا میں حقوق الٰہی میں بھی بڑی غفلت برتی جارہی ہے، توحید کے نور کے بجائے کفروشرک کے اندھیارے چادر تانے ہوئے ہیں۔ بندگانِ خدا کے حقوق کو بڑی بے دردی کی ساتھ روندھا جارہا ہے۔ جس معاشرہ میں دنیا جہاں اور معاشرہ کو وجود بخشنے والی ذات کو نظر انداز کردیا جائے، سینہ تان کر اسکے حقوق کی پامالی کی جائے اور مخلوق خدا پر ظلم وستم ڈھا کر اُن کو حقوق سے محروم کیا جائے ایسے معاشرہ میں راحت و سکون کہاں سے آسکتا ہے۔
اس وقت سارے عالم کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ حقوق اللہ بھی پامال ہورہے ہیں اور حقوق العباد بھی، مساجد اور عبادتگاہوںکا احترام ختم ہوتا جارہا ہے، اللہ کی کتاب قرآن کی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کیاجارہا ہے، غلط تاویلات کا سہارا لیکر انسانی جانوں سے کھیلا جارہا ہے، بزرگان دین و صالحین امت کی آرامگاہوں سے چھیڑچھاڑ کی جارہی ہے، قتل و خون اور انسانی جانوں کا ضیاع وہ بھی اسلام کا سہارا لیکر کیا جارہا ہے، یہ جوکچھ تماشہ ہورہا ہے وہ اپنوں کے ہاتھوں ہے، بذات خود وہ اِن اعمال بد کے مرتکب ہیں یا یہ کہ دشمنان اسلام کے آلہ ٔ کار، یقینا اس سے پردہ اٹھنا چاہئے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام دشمن بلکہ انسان دشمن طاقتیں بڑے پیمانے پر سارے عالم میں فساد مچارہی ہیں، ان کی ساری توانائیاں اور انکا سارا زوروزر اس بات پر صرف ہورہا ہے کہ مہلک قسم کے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تیار کئے جائیں، عصری طرز کے آلات حرب و جنگ بنائے جائیں تاکہ سارے عالم میں ان کی اجارہ داری قائم رہے اور ہر ملک ان کے آگے سرنگوں رہے، اس مقصد کیلئے ہواؤں اور فضاؤں سے بمباری ہورہی ہے اور ہوائی بیڑے جوجنگی طیاروں سے لیس ہیں اپنی پرواز سے خشکی پر رہنے والوں کو سہمائے ہوئے ہیں، خشکی میں جگہ جگہ عصری آلات ومیزائل نصب کرلیے گئے ہیں، سمندروں کی بے کراں وسعتوں میں جنگی آلات حرب و ضرب سے لدے بحری جہاز لنگرانداز ہیں اور پوری انسان دشمن طاقتیں مہلک اسلحہ کی تیاری میں اس کام میں لگے دوسروں کو پیچھے چھوڑنے کی فکر میں لگی ہوئی ہیں، مادی و مالی سارے وسائل و ذرائع اسی مقصد کیلئے استعمال کئے جارہے ہیں، ایسے میں دنیا جہنم زار بنی ہوئی ہے۔ ظالم طاقتوں کے ظلم کے کیا کہنے، انکا ظلم توکھلی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن یہ ظلم آخر کیوں بادل بن کر انسانوں کے سروں پر منڈلارہا ہے وہ اور زیادہ قابل غور وفکر ہے، وہ کیا وجوہات ہوسکتی ہیں کہ جن کی وجہ اِن ظالم انسان دشمن طاقتوں کے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے اس حقیقت تک پہنچنا مشکل نہیں ہے، اگر گہری بصیرت کیساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس خیرامت نے ایمان اور اس کے تقاضوں سے ہاتھ دھولیا ہے، خود کی اصلاح اور اوروں کی اصلاح جسکا فریضۂ منصبی تھا اس سے غافل ہوگئی ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اِس وقت اسلامی سماج نام کو تو اسلامی ہے لیکن غیراسلامی شعائر نے ڈیرا جمالیا ہے ، اسلامی تہذیب و تمدن کو اپنے اعمال بد سے داغدار کرلیاگیا ہے، مسلم معاشرہ میں خیر و بھلائی کے پھول مہکنے کے بجائے شروبرائی کی خاردار جھاڑیاں روح ایمان کو لہولہان کررہی ہیں۔
اس آیت پاک میں حق سبحانہ و تعالیٰ نے خشکی و تری میں فسادوبگاڑ پھیلنے کے اسباب بیان فرمادئے ہیں، خشکی و تری کے سارے راستے اس وقت امن و سکون سے محروم ہیں، انسانی آبادیاں خواہ وہ خشکی میں ہوں یا ساحل سمندر سے قریب ہوں اور خود برّی و بحری مخلوقات سب کے سب مصیبت کا شکار ہیں، اس مصیبت کا حل اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خود انسانوں کے پاس ہے، انسان جس دن الٰہ واحد کے حقیقی معنی میں پرستار بن جائیں اور اسی کو اپنا مأویٰ و ملجاء مان کر اسکی پناہ میں آجائیں اُسی دن وہ رحمت الٰہی کے سائبان میں آجائیںگے، پھر تو اپنی بداعمالیوں کی وجہ آنے والے سارے خطرات ٹل جائیں گے، مصائب و آلام جو اللہ سبحانہ کی طرف سے بطور زجر و توبیخ آفات ارضی وسماوی اور بطور سزا و تنبیہ نازل ہورہے ہیں اور دشمنان اسلام کی شکل و صورت میں ظلم ڈھارہے ہیں ہر دو سے خلاصی ممکن ہے، بشرطیکہ کفروشرک اور بداعمالیوں کی تاریکی کو امت مسلمہ اپنی جہد مسلسل سے نوروروشنی میں تبدیل کردے۔ خشکی وتری سے فسادوبگاڑ کو دور کرنے کی یہی ایک راہ ہے کہ بندگانِ خدا اسکے بنائے ہوئے نظام عدل کو خود اپنی ذات پر اور معاشرہ میں رہنے بسنے والے سارے انسانوں پر لاگو کریں۔ الغرض اس دنیا کومصائب وآلام سے چھٹکارہ دلانے اور اس کو گہوارۂ امن و سکون بنانے کی ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے اسلام۔