مظفرنگر ۔ 28 اگست (سیاست ڈاٹ کام) گذشتہ سال کے فسادات مقامی لوگوں کے ذہنوں میں ہنوز تازہ ہے، جیسا کہ اترپردیش کے مظفرنگر ۔ شاملی علاقہ میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد دیہاتوں میں اپنی جائیدادیں فروخت کررہے ہیں جبکہ انہوں نے اپنے مکانات کو چھوڑ کر کیمپوں میں پناہ لے لی تھی۔ اب صورتحال یہ ہیکہ ان کے جاٹ پڑوسی ایسی شرحوں پر جائیدادیں خرید رہے ہیں جس کی ماقبل فسادات توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ تاہم حکام کا کہنا ہیکہ مجبوری کی حالت میں کوئی فروخت ان کے علم میں نہیں آئی ہے اور وہ اس معاملہ میں مداخلت سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جائیداد کی فروخت بدستور نجی معاملہ ہے۔ موضع کنکرا میں جو کتبہ کتبی سے تقریباً 5 کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، جہاں 8 قتل اور کئی فساد سے متعلق معاملے پیش آئے،
مسلمانوں کی اکثریت نے اپنے مکانات جاٹ لوگوں کو بیچ دیئے۔ گذشتہ سال 7 ستمبر کو اس موضع کے تین نوجوان جو جاٹ مہا پنچایت میں شرکت کیلئے گئے تھے، موضع کل بلیان میں پیش آئی جھڑپ کے بعد ہلاک ہوگئے۔ انتقامی کارروائی کے اندیشے سے 250 مسلم خاندان اس موضع سے اپنے مکانات چھوڑ کر چلے گئے اور تب سے قریبی مسلم اکثریتی دیہاتوں میں واقع ریلیف کیمپوں میں مقیم ہیں۔ گاؤں کے پردھان رویندر سنگھ نے کہا کہ گذشتہ 6 ہفتوں میں 250 کے منجملہ 150 مسلم خاندانوں نے اپنے مکانات پڑوسی جاٹ لوگوں کو فروخت کردیئے۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال کچھ اس طرح ہوگئی ہے کہ معمولی واقعات فرقہ وارانہ رنگ اختیار کررہے ہیں جیسے سڑک حادثات، چوریاں وغیرہ۔ اس علاقہ میں ایک سال گذر چکا ہے جہاں اس سے قبل فرقہ وارانہ کشیدگی کبھی نہیں دیکھی گئی۔
لہٰذا اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کچھ بھی کہہ لیں، مسلمان ہمارا گاؤں چھوڑ کر چلے جانا چاہتے ہیں اور جاٹ لوگوں کو انہیں روکنے کی زیادہ کوشش کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہر روز ان سے کئی مسلم رجوع ہوتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ ان کی جائیداد فروخت کرادیں۔ ایک سابق پرنسپل پرائمری اسکول کرن سنگھ سائنی نے لگ بھگ 650 مربع میٹر کا پلاٹ جس پر ایک مکان جو تعمیر ہے، 5 لاکھ روپئے میں محمد شبیر سے خرید لیا۔ اس گاؤں کیلئے نظرثانی شدہ سرکاری شرح جو یکم ؍ اگست کو متعارف کرائی گئی، 1,400 روپئے فی مربع میٹر ہے۔ یعنی سائنی کو صرف یہ زمین ہی زائد از 9 لاکھ روپئے میں ملنی چاہئی تھی۔ عام حالات میں اس علاقہ کا کوئی مکان 15 لاکھ روپئے میں حاصل ہوتا لیکن شرحیں بہت گھٹ گئی ہیں کیونکہ زیادہ لوگ اپنی جائیداد فروخت دینے کے خواہش مند ہیں۔