فتوے بھی تو مذہبی قانون ہوتے ہیں جناب
اہمیت قانون کی اس پر عمل کرنے سے ہے
فتویٰ کی قانونی اہمیت
ہندوستان میں تحفظ شریعت کیلئے ہر موقع پر کوشش ہوتی رہی ہیں۔ مسلم پرسنل لاء کے امور میں عدلیہ، حکومت اور دیگر گوشوں سے مداخلت کا مسئلہ بھی ایک تشویشناک پہلو رکھتا ہے۔ دستورہند کے تحت یہ حق ہیکہ مسلمان مسلم پرسنل لاء کے تحت اپنے فیصلے کریں مگر عدالتوں نے اکثر مسلم پرسنل لاء کے امور پر اپنی رائے زنی کی ہے۔ تازہ واقعہ بھی اگر چیکہ مسلم پرسنل لاء کو شرعی اطلاق قانون 1937 کے واضح ہدایت کی روشنی میں ہی عمل کرتا ہے لیکن سپریم کورٹ نے شرعی عدالتوں اور فتوؤں کی کوئی قانونی اہمیت نہ ہونے کی رولنگ دی ہے۔ یہ بحث پرانی ہے کہ فتوؤں کو قانونی اہمیت نہ دی جائے اور مسلم پرسنل لاء بھی شرعی امور اور شرعی عدالتوں کے فیصلوں کو قانونی عدالتوں کے تقابل ماننا نہیں جاتا۔ شرعی عدالتوں کے فیصلہ خالص شریعت کے مطابق ہوتے ہیں اور عقیدہ پر عمل کرنے والے افراد اپنے شرعی اصولوں کی بھی پابندی کرنے کیلئے آزاد ہیں۔ قانون کی جانب سے فتوؤں کو تسلیم نہ کرنا ایک الگ مسئلہ ہے لیکن جب دو فریق ایک ہی مذہب پر عمل کرتے ہیں تو ان کے لئے اپنے مذہب کے شرعی قانون پر چلنے میں کوئی شئے مانع نہیں ہوتی۔ تاہم جب شرعی مسئلہ قانون کی عدالتوں سے ٹکراتا ہے تو اس سے کئی انسانی حقوق، قانونی پیچیدگیاں اور دیگر تاویلات کیس کے اردگرد چکر کاٹتے ہیں۔ عدالت نے ایک طرف فتوؤں کی قانونی اہمیت نہ ہونے کی رولنگ دی دوسری طرف یہ بھی واضح کردیا کہ اگر کوئی شرعی عدالتوں سے رجوع ہونا چاہتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے۔ عدالت کا فیصلہ اس درخواست کے تناظر میں ہے جس میں درخواست گذار نے شرعی عدالتوں کی دستوری حیثیت پر سوال کیا تھا۔ درخواست گذار کی نیت اور اس کی عرضی کی افادیت ہر دو کو سپریم کورٹ نے واضح کردیا ہے یہ کہنا غلط ہے کہ شرعی عدالتیں ملک میں متوازی عدلیہ نظام چلا رہی ہیں جبکہ شریعت کو دستور کے آئینہ میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ دستور ہند نے ہر مذہب کو آزادی دی ہے کہ وہ اپنے مذہبی قانون کے تحت زندگی گذارے۔ روزمرہ کے امور انجام دے۔ مسلمانوں کو یہ دستوری حق دیا گیا ہے جس پر عمل کرنے سے کوئی بھی قانون نہیں روک سکتا۔ سپریم کورٹ نے بھی یہی بات واضح کی ہے لیکن درخواست گذار وکیل وشوا لوجن مدن کی مفادعامہ کی درخواست سرار شرارت پر مبنی کہی جاسکتی ہے۔ مرکز میں بی جے پی حکومت کے آنے کے بعد مسلم مسائل کو اچھالنے اور اس کو غلط رخ دینے کی کوشش ہوتی ہے تو یہ ایک سخت ناپسندیدہ اور شرانگیز عمل کہلاتا ہے۔ یکساں سیول کوڈ لانے کی کوشش کی جانب اس طرح کے حربے شروع کئے جاسکتے ہیں۔ برادران وطن کے ذہنوں میں بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ شرعی امور میں مداخلت کی کوشش ایک نازک اور حساس مسئلہ ہے۔ مسلم طبقہ پر یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی دیرینہ کوششوں کو اب تو مزید شدت سے جاری کیا جائے گا۔ دستور کے دفعہ 44 کے تحت یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کو مملکت کے رہنمایانہ اصولوں میں شامل کیا گیا ہے لیکن 1928 میں ہی آزادی سے قبل اس طرح کی تجویز جب سامنے آئی تھی تو اس وقت علمائے کرام نے جو اپنا بڑا اثر رکھتیتھے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ چنانچہ اس مخالفت کی بنیاد پر ہی برطانوی حکومت نے بھی اس تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ اس کے چند سال بعد خود کانگریس نے بھی جو قومی آزادی کی تحریک کی قیادت کررہی تھی موتی لال نہرو کی رپورٹ کو جس میں شادی بیاہ کے معاملات کو یکساں ملکی قانون کے تحت لانے کی بات کہی گئی تھی، اپنے لاہور سیشن میں مسترد کردیا تھا لیکن اب پھر ایک بار فرقہ پرست طاقتیں مسلم پرسنل لاء اور یکساں سیول کوڈ کے ٹکراؤ کی راہ کشادہ کرنا چاہتے ہیں۔ دستور، بنیادی طور پر انسانی جذبوں کا اظہار ہے۔ جب ہم اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کے مطابق دستور میں ترمیم کرتے ہیں تو اسی طرح پرسنل لاء کے معاملہ میں دستور نے اجازت دی ہے۔ ہر شہری کو اس کے پسند کے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے لہٰذا عدلیہ کے اس فیصلہ کو مسلم پرسنل لاء میں رکاوٹ متصور نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی عدلیہ کو یہ باور کرایا جاسکتا ہیکہ مسلم پرسنل لاء متوازی نظام عدلیہ پر گامزن ہے۔ دستور کے دفعہ 44 پر جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں انہیں دستور کی دفعہ 25 کا معروضی جائزہ لینا چاہئے۔ یہ دفعہ ہندوستان کے کسی بھی شہری کو اس کے ضمیر پر قائم رہنے اور مذہبی آزادی کے علاوہ مذہبی تبلیغ کرنے کی کامل آزادی عطا کرتے ہوئے دفعہ 44 کی تردید کرتی ہے۔ لہٰذا جو لوگ یکساں سیول کوڈ یا اس تناظر میں وسوسے پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو اپنی حرکتوں سے باز آجانا چاہئے۔ مسلمانوں کی تنظیموں، علمائے دین، قائدین کو بھی سماج میں میں پیدا کئے جانے والے فتنوں اور پرسنل لاء پر انگلی اٹھانے والی طاقتوں کے خلاف منظم و متحدہ جدوجہد کرنی چاہئے۔ ملک کی موجودہ حکومت اور مسلمانوںکو لاحق تشویش یہ تقاضہ کرتی ہے کہ آنے والے دنوں میں پیدا کی جانے والی امکانی خرابیوں کو ابھی سے محسوس کرکے تحفظ شریعت کی مہم چلائیں۔ شرعی عدالتوں اور فتوؤں کے خلاف پیدا کی جانے والی بدگمانیوں کا خاتمہ کرنا ہر مسلم رکن کا فرض ہے۔ مسلم معاشرہ کو ازخود پابند شریعت ہوتے ہوئے اپنے مسائل کو شریعت سے باہر حل کرنے کی کوششوں کو یکلخت ختم کرنے پر دھیان دینا چاہئے۔