نئی دہلی ۔ 25 ۔ فروری (سیاست ڈاٹ کام) مسلم علماء کی جانب سے جاری کردہ فتویٰ کو عوام پر مسلط نہیں کیا جاسکتا اور جنہیں اس طرح کے فتوؤں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہراسانی کا سامنا ہو، ان کا تحفظ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ سپریم کورٹ نے آج یہ بات کہی اور تاہم شرعی عدالتوں کے معاملہ میں مداخلت کے تعلق سے تحفظات کا اعلان کیا ۔ جسٹس سی کے پرساد کی زیر قیادت بنچ نے کہا ہے کہ عوام فتویٰ کو قبول کرتے ہیں یا نہیں یہ ان کی مرضی کا معاملہ ہے۔ عدالت نے کہا کہ دارالقضاء اور دارالافتاء جیسے ادارے چلانا ایک مذہبی معاملہ ہے اور عدالتوں کو صرف اسی صورت میں مداخلت کرنی چاہئے جب ان اداروں کے فیصلے سے کسی کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔
بنچ نے کہا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کا تحفظ کرسکتے ہیں جو ان فتوؤں کی وجہ سے متاثر ہورہے ہوں۔ جب ایک پجاری دسہرہ کی تاریخ کا اعلان کرتا ہے لیکن وہ کسی کو اسی دن دسہرہ تہوار منانے کیلئے مجبور نہیں کرسکتا ۔ اگر کوئی آپ کو اس طرح مجبور کرے تو ہم اس کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی یہ بنچ ایک درخواست کی سماعت کر رہی تھی جس میں علماء کے جاری کردہ فتوؤں کو غیر دستوری قرار دینے کی خواہش کی گئی تھی۔ بنچ نے کہا کہ علماء کے جاری کردہ فتوے اور پنڈتوں کی پیش قیاسیاں کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے چنانچہ عدالتوں کو ان معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے ۔ بنچ نے یہ بھی کہا کہ بعض فتوے عوام کی فلاح کے لئے بھی جاری کئے جاتے ہیں۔ بنچ کے مطابق کس قانون نے فتویٰ جاری کرنے اور کس قانون نے پنڈت کو مستقبل کی پیش قیاسی کے اختیارات دیئے ہیں ؟ عدالت صرف اتنا کہہ سکتی ہے کہ اگر کوئی شخص فتویٰ کی وجہ سے متاثر ہورہا ہو تو حکومت اس کا تحفظ کرے۔ سپریم کورٹ میں یہ درخواست ایڈوکیٹ وشوا لوچن نے دائر کی جس میں شرعی عدالتوں کے دستوری جواز کو چیلنج کیا گیا جو مبینہ طور پر ملک میں عدالتی نظام کے متوازی چلائی جارہی ہیں ۔ سپریم کورٹ نے مفاد عامہ کی اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سیاسی اور مذہبی معاملات ہیں اور ہم اس میں دخل اندازی نہیں چاہتے ۔
آل انڈیا پرسنل لا بورڈ نے عدالت کو بتایا کہ عوام فتویٰ پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہے ، یہ صرف ایک کسی مفتی کی رائے ہوتی ہے اور وہ اس پر عمل آوری کا کوئی اختیار یا اتھاریٹی نہیں رکھتا۔ سینئر ایڈوکیٹ راجیو رام چندرن نے پرسنل لا بورڈ کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ اگر کسی شخص کو اس کی مرضی کے بغیر کسی فتوے پر عمل آوری کیلئے مجبور کیا جائے تو وہ شخص اس کے خلاف عدالت سے رجوع ہوسکتا ہے ۔ درخواست گزار نے کہا کہ مسلم تنظیموں کی جانب سے مقرر کردہ قاضیوں اور مفتیوں کے جاری کردہ فتوؤں کی وجہ سے مسلمانوں کے بنیادی حقوق پر کنٹرول اور انہیں محدود نہیں کیا جاسکتا۔